زیادہ تر امریکیوں کے لیے ’تھینکس گونگ‘ کے تہوار کا مطلب حدود سے تجاوز کرنا ہوتا ہے۔ روایتی ’فیملی ڈنر‘ میں کھانا زیادہ کھایا جاتا ہے، ٹیلیویژن پر فٹبال دیکھا جاتا ہے اور تعطیلات کے موسم کے آغاز پر کئی ایک پریڈ منعقد ہوتی ہیں، جب کہ ’بلیک فرائڈے‘ پر بے تحاشہ خریداری کی جاتی ہے۔
لیکن، چاہے کچھ بھی ہو، بیشک جیب ساتھ نہ دے، گذشتہ سال کی طرح 10 افراد کے لیے مہنگے ’تھینکس گونگ ڈنر‘ کا بندوبست ضرور کرنا ہے! جیسا کہ نیو یارک کے ’اولڈ ہوم اسٹیڈ اسٹیک ہاؤس‘ میں کیا گیا، جہاں 10 افراد کے ڈنر پر 76،000ڈالر خرچ آئے تھے۔ ریستوران نے یہ نہیں بتایا آیا پچھلے چار برسوں کی طرح اس سال بھی وہ ڈنر کی اُسی سج دھج سے بکنگ کر رہے ہیں۔
بات یہ ہے کہ تھینکس گونگ کی عام ڈنر پر بہت ہی کم خرچہ آتا ہے۔
’امریکن فارم بیورو فیڈریشن‘ کے مطابق، ملک بھر میں 10 افراد کے تھینکس گونگ کے کھانے پر 48.90 ڈالر خرچ آتا ہے، یعنی پانچ ڈالر فی کس سے بھی کم۔
اِس بار زیادہ تر بچت ’ٹرکی‘ کے ارزاں ہونے کے باعث ہوگی، جو 1.36 فی پاؤنڈ دستیاب ہے، جو سنہ 2014کے بعد کا کم ترین نرخ ہے۔
ساتھ ہی، دیگر روایتی ’مینو آئٹمز‘ میں ’رولز، سویٹ پٹیٹو، پیز اینڈ مِلک‘ شامل ہے، جو ساری چیزیں اس سال بھی ارزاں قیمت پر دستیاب ہیں۔
امریکی تعطیلات کا مرکزی محور گھوم پھر پر کھانا ہی ہوتا ہے۔ یہ دن نومبر کی چوتھی جمعرات کو آتا ہے، جو موسم خزاں کی فصل کی کٹائی کی روایتی ضیافت کی یاد دلاتا ہے، جو دراصل سال 1621 کی روایت ہے، جو ’پلے ماؤتھ‘ کے نو آبادیاتی باشندوں اور ویمپاناگ انڈینز منایا کرتے تھے۔
تعطیلات کے دوران کوشش یہی کی جاتی ہے کہ تھینکس گونگ کا ڈنر اُسی طرح تیار کیا جائے جیسا کہ مروجہ معیار ہے۔ اس تہوار نے ’قومی تعطیل‘ کا روپ اُس وقت دھارا جب 1863ء میں صدر ابراہم لنکن نے اس کا باقاعدہ اعلان کیا، اور ایک واضح تاریخ کا تعین کیا، جس سے تقریباً 200 برس قبل پہلے قدیمی ڈنر کا اہتمام کیا گیا۔
آج کے ایک اچھے امریکی کھانے کے علاوہ، اصل ضیافت سے اس کا کوئی خاص تعلق نہیں لگتا۔
کہا جاتا ہے کہ اس میں ’ونیژن‘ یا ہرن کا گوشت پروٹین کا اہم ذریعہ ہے، حالانکہ بطخ اور ہنس کے ساتھ ساتھ، ٹرکی بھی روایت کا حصہ بننے کے بعد چھا گئی۔
اِن دِنوں، ’ہیم‘ کے بعد، یقینی طور پر ٹرکی ہی پسند کا گوشت قرار پایا ہے۔
’نیشنل ٹرکی فیڈریشن‘ نے کہا ہے کہ گذشتہ سال تھینکس گونگ کے تہوار پر تقریباً چار کروڑ 40 لاکھ ٹرکیاں ذبح کی گئیں۔
گروپ کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق، 88 فی صد کا کہنا تھا کہ تعطیل کے تہوار میں اُنھوں نے ٹرکی کا انتخاب کیا، جب کہ 39 فی صد نے بتایا کہ یہی اُن کی پسندیدہ دش ہے۔ جائزے کے مطابق، دیگر اعلیٰ ڈشوں میں ’اسٹفنگ‘ اور ’پمپکن پائی‘ شامل ہیں۔
سنہ 2013 میں ’یوگَو/ہفنگٹن پوسٹ‘ کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق، تھینکس گونگ منانے والوں کے 39 فی صد نے کھانا 3 بجے اور 6 بجے شام کے دوران کھایا؛ جب کہ 35 فی صد نے کھانا 12 بجے دوپہر اور 3 بجے شام کے درمیان کھایا۔
لیکن، احباب اور اہل خانہ جب میز کے گرد جمع ہوتے ہیں، اُس وقت دیگر روایات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے، اور یہ روایات ہیں: ٹیلی وژن پر پریڈ اور فٹبال دیکھنا۔
تھینکس گونگ اور فٹبال کا ساتھ اُس وقت جُڑا جب عام امریکی نے اس عمل کا رواج اپنایا۔
جب صدر لنکن نے تھینکس گونگ کو قومی تعطیل قرار دیا، اس سے ایک عشرے کے بعد ایک اور روایت نے جنم لیا، اور وہ تھی تھینکس گونگ کے دِن فٹبال کے میچ ہونا۔ سنہ 1876میں فٹبال کا پہلا میچ ’یئل‘ اور ’پرنسٹن‘ یونیورسٹیوں کے درمیان کھیلا گیا۔
سنہ 1924 کے بعد سے امریکی آڑھت کے بڑے کاروباری ادارے، ’میسیز‘ نے امریکی تعطیل کے موسم میں دنیا کی سب سے بڑی پریڈ کا اہتمام شروع کیا۔
اس سال نیو یارک شہر میں یہ پریڈ ڈھائی میل تک پھیلی ہوئی ہوگی، جس میں 31 فلوٹ، 25 بڑے غبارے، 1000کلاؤنز، 12 مارچنگ بینڈ اور 1500 ڈانسر اور چیر لیڈر شامل ہوں گے۔ اسے دیکھنے کے لیے 35 لاکھ لوگ آئیں گے، جب کہ ٹیلی ویژن پر اسے چار کروڑ 30 لاکھ لوگ دیکھیں گے۔
تینتیس روز بعد، ’میسیز پریڈ‘ کا آخری فلوٹ ’سانتا کلاز‘ پر مشتمل ہوگا، جو کرسمس کا ایک باضابطہ اعلان ہوتا ہے۔
کھانا کھانے کے بعد جب میز صاف کیے جاتے ہیں، تب جا کر امریکی کمر کستے ہیں؛ نقدی اور کریڈٹ کارڈ اٹھاتے ہیں اور تعطیلات کی شاپنگ کا آغاز ہوجاتا ہے۔
’نیشنل رٹیل فیڈریشن‘ کے مطابق، گذشتہ سال تھینکس گونگ اختتام ہفتہ سمیت، پانچ روز کے دوران، 17 کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد نے اسٹوروں میں جا کر یا پھر آن لائن خریداری کی۔ یہ خریداری ’بلیک فرائڈے‘ سے شروع ہوئی اور ’سائبر منڈے‘ تک جاری رہی۔