صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں پائے جانے والے کوئلے کے ذخائر سے چلنے والے پہلے پاور جنریشن پلانٹ کا باضابطہ افتتاح کر دیا گیا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت قائم کیا گیا یہ پاور پلانٹ کمرشل بنیادوں پر جون تک 660 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کرنا شروع کر دے گا۔
پبلک پرائیوایٹ پارٹنر شپ کے ذریعے تھر کول سے بجلی پیدا کرنے کا یہ پہلا منصوبہ ہے۔ یہ منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا بھی حصہ ہے۔ اس منصوبے کو تقریباً 27 سال بعد پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔
1992 میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں علاقے میں 175 بلین ٹن سے زائد کوئلے کے ذخائر دریافت ہونے کے بعد اس پر کام آگے نہ بڑھ سکا۔
2009 میں سندھ حکومت اور اینگرو کمپنی کے درمیان پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی تشکیل دی گئی جس کے بعد 2016 میں کمپنی نے منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔ اس وقت سے 160 میٹر گہرائی تک کوئلہ نکالا جا رہا ہے جس سے 330 میگاواٹ کے 2 پاور پلانٹس چلائے جائیٕں گے۔
سندھ اینگر کول مائننگ کمپنی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نعیم پاشا کے مطابق بلاک ٹو میں ہونے والی مائننگ سے 5 سے 6 ہزار تک میگا ووٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی اور ان ذخائر سے 50 سے 60 سال تک بجلی کی پیداوار جاری رکھی جا سکتی ہے۔
تھر کول پاور پراجیکٹ سے جون 2019 تک 660 میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں کمرشل بنیادوں پر فراہم کی جائے گی جس سے ملک میں بجلی کی طلب اور رسد کے فرق کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
افتتاحی تقریب میں اپنی تقریر کے دوران چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے قوم مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ حقیقی تبدیلی یہ ہے جو سندھ حکومت لائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے ذریعے نہ صرف ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ یہ علاقہ بھی ترقی کرے گا۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ تھرپارکر میں دو یونیورسٹیوں کے قیام کے لئے بھی صوبائی حکومت جلد کام شروع کرنے جا رہی ہے۔
دوسری جانب توانائی کے ماہرین اس منصوبے سے بجلی پیدا کرنے کو خوش آئند تو قرار دے رہے ہیں لیکن ان کا ہپ بھی کہنا ہے کہ بجلی کے ترسیلی نظام میں وسعت لائے بغیر ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ممکن نہیں۔
اے کے ڈی سیکورٹیز سے منسلک ماہر توانائی حمزہ علی کا کہنا ہے کہ پاکستان اب اپنی ضرورت کے تحت بجلی پیدا کرنے کا ہدف تو حاصل کر چکا ہے لیکن کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی سے جنم لینے والے ماحولیاتی مسائل سے بھی نمٹنا ہو گا۔ اس کے لئے حکومت کو پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس میں یہ بات طے کی جائے کہ کوئلے، پانی، فرنس آئل اور متبادل توانائی یا دیگر ذرائع سے بجلی کی پیداوار کا تناسب کیا ہونا چاہیے۔
تاہم پاور پلانٹ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہاں کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی سے عالمی معیار سے 50 فیصد کم آلودگی پیدا ہو گی۔
ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان 1620 میگاواٹ بجلی کوئلا جلا کر حاصل کر رہا ہے۔ جس میں جون تک تھر کے کول پاور پلانٹ سے 660 میگاواٹ بجلی شامل ہونے کے بعد یہ پیداوار 2280 میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔