پاکستان کی وفاقی کابینہ نے جبری طور پر لاپتا افراد کی تلاش اور لواحقین کی مدد لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس کے چیئرمین وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ ہوں گے۔
اس سلسلے میں وزارتِ داخلہ نے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا جس کے مطابق وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ، وزیرِ مواصلات اسعد محمود، شازیہ مری، وزیر برائے دفاعی پیداوار اسرار ترین اس کمیٹی کے اراکین میں شامل ہیں۔
کمیٹی میں وزیرِ بحری امور فیصل سبزواری اور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آغا حسن بلوچ بھی شامل ہیں۔ کمیٹی میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں اور قانونی ماہرین کو بھی شامل کیا جاسکے گا۔
حکومتی کمیٹی اپنی رپورٹ وفاقی کابینہ کو پیش کرے گی اور وزارتِ داخلہ کمیٹی کو سیکریٹریٹ مہیا کرے گی۔
نوٹیفکیشن کے مطابق کابینہ نے 24 مئی کو اپنے فیصلے میں لاپتا افراد اور جبری گمشدگیوں سے متعلق پالیسی معاملات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا تھا۔
کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ماہرینِ قانون، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو بھی بلا کر ان سے تجاویز لے۔ اپنی رپورٹ اور سفارشات کابینہ کے سامنے رکھے جس پر بحث کے بعد حکومت جبری گمشدگیوں سے متعلق پالیسی بنائے گی اور اس معاملے پر فیصلے کرے گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا افراد کیس میں مدثر ناور سمیت چھ لاپتا افراد کو 17 جون کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے لاپتا افرادکیسز پر 15 صفحات کا تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے۔
عدالت نے آئینی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کے لیے آخری موقع دیتے ہوئے کہاکہ لاپتا افراد کو عدالت میں پیش کریں یا ریاست کی ناکامی کا جواز بیان کریں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اتوار کے روز جاری ہونے والے تحریری حکم نامہ میں وفاقی حکومت کو پرویز مشرف سے لے کر آج تک تمام وزرائے اعظم کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کیوں نہ عدالت تمام چیف ایگزیکٹوز کے خلاف آئین سے مبینہ انحراف پر کارروائی کرے ؟
اسلام آبادہائی کورٹ نے مدثر نارو سمیت چھ لاپتا افراد کو 17 جون کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ 6 لاپتا افراد کو پیش نہ کرنے پر موثر تحقیقات میں ناکامی کی وضاحت کی جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ سیکریٹری داخلہ عدالتی حکم کی نقل وزیرِ اعظم اور کابینہ کے ارکان کے سامنے رکھیں ۔
عدالت نے استفسار کیا کہ جبری گمشدگیوں کی غیر اعلانیہ پالیسی سے قومی سلامتی کو خطرے میں کیوں ڈالا گیا؟ ہر چیف ایگزیکٹو اس کی وضاحت کرے اور کیوں نہ سنگین غداری جرم کے تحت کارروائی کی جائے ۔ پرویز مشرف نے کتاب میں لکھا ہے کہ جبری گمشدگیاں ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی تھی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت عدالتی معاون آمنہ مسعود کی تجاویز زیرغور لاکر رپورٹ پیش کرے۔لاپتا افراد کی عدم بازیابی پر موجودہ اور سابق وزرائے داخلہ عدالت میں پیش ہوں۔
عدالت نے سوال کیا کہ درخواستوں پر فیصلہ دے کر غیر ذمہ داری پر کیوں نہ وزرائے داخلہ پر بھاری جرمانے کیے جائیں؟ اٹارنی جنرل عدالت کو مطمئن کریں کہ مستقبل میں جبری گمشدگی نہیں ہو گی ۔
عدالت کا کہنا تھا کہ مستقبل میں مبینہ جبری گمشدگی پر وفاق، صوبے کے چیف ایگزیکٹو پر کیوں نہ فوج داری مقدمات درج کرائے جائیں۔ وفاقی حکومت لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو اپنی مشکلات سے آگاہ کرنے کے لیے اقدامات کرے ۔ یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس سے متعلق کوئی غیر اعلانیہ سینسر شپ نہیں ہوگی۔
کتنے افراد لاپتا ہیں؟
وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اس کمیشن کے بھی سربراہ ہیں۔
اس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 30 اپریل 2022 تک 8ہزار 661 افراد کا لاپتا ہونا رپورٹ کیا گیا جن میں سے 6ہزار408 کیسز حل ہوچکے ہیں جب کہ 2ہزار 253 کیسز ابھی بھی حل طلب ہیں۔
لاپتا افراد کی سب سے بڑی تعداد خیبر پختونخوا میں ہے۔صوبے میں ایک ہزار 412 افراد لاپتا ہیں۔ بلوچستان میں یہ تعداد 342،سندھ میں 174، پنجاب میں 264 ،اسلام آباد میں 49، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں نو اور گلگت بلتستان میں 3 افراد کے لاپتا ہونے کی رپورٹس ہیں۔
پاکستان میں ایسے واقعات کے بارے میں حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ان میں سے کئی افراد انتہاپسند تنظیموں کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی مرضی سے اپنے گھروں سے دور رہ رہے ہیں اور حکومت پر غلط الزام عائد کررہے ہیں کہ انہیں اغوا کیا گیا ہے۔
ماضی میں عدالتوں میں بعض انتہا پسندوں سے متعلق حکومت آگاہ کرچکی ہے جب کہ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 946 افراد کے ’ ایکشن ان ایڈ آف سول پاورز ریگولیشنز 2011‘ کے تحت حراستی مراکز میں قید ہونے کی اطلاع موصول ہوئی تھی اور متعلقہ اداروں کی جانب سے اہل خانہ کے ساتھ قیدیوں کی ملاقاتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔