رسائی کے لنکس

بھارت کا مقدس شہر جہاں لوگ مرنے کی خواہش سے آتے ہیں


  • وارانسی میں ہر سال اپنی زندگی کے آخری ایام گزارنے ہزاروں عقیدت مند آتے ہیں۔
  • ہندو مذہب میں دریائے گنگا کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔
  • عقیدت مند یہاں چتا کو جلا کر راکھ گنگا میں بہانے کو زندگی اور موت کے چکر سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
  • زیادہ تر بزرگ افراد اپنی زندگی کے آخری ایام گزارنے کے لیے یہاں قائم گیسٹ ہاؤسز میں اپنا وقت گزارتے ہیں۔

اترپردیش کے شہر وارانسی میں دریائے گنگا کے کنارے دنیا سے رخصت ہوجانے والے متعدد افراد کی میتیں آخری رسومات کی منتظر ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام گنگا کے قریب گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔

دریائے گنگا ہندوؤں کے نزدیک مقدس دریائے سمجھا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے وارانسی (بنارس) شہر میں سارا سال ہندو عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔

گنگا کنارے جا کر زندگی کے آخری دن گزارنے والے افراد کا عقیدہ ہے کہ ان کی چتا کو جلا کر راکھ دریائے گنگا کے 'اشنان گھاٹ' میں بہانے سے اُنہیں بار بار جنم کے سلسلے سے نجات مل جاتی ہے۔

بانوے سالہ بدری پرساد اگروال راجستھان سے تقریباً ایک ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر وارانسی پہنچے ہیں۔ اُنہیں یہ خوشی ہے کہ وہ مرنے کے لیے صحیح جگہ پر ہیں۔

طویل اور تھکا دینے والی زندگی کے آخری ایام یہاں گزارنے کے لیے آنے والے اگروال کہتے ہیں کہ "یہ خدا کی اپنی زمین ہے۔"

خدا کا گھر

اگروال کہتے ہیں کہ "مجھے خدا نے بتایا کہ میرے پاس جینے کے لیے صرف پانچ ماہ باقی ہیں۔"

اگروال جیسے افراد کے لیے گنگا کے قریب ایک گیسٹ ہاؤس بنایا گیا ہے جہاں یہ آرام اور سکون کے ساتھ اپنی زندگی کے آخری ایام گزارتے ہیں۔

اس گیسٹ ہاؤس میں 40 کمرے ہیں اور یہ اگروال جیسے 'نجات کے متلاشیوں' سمیت ہزاروں افراد کو قیام کی سہولت دے چکا ہے۔

اگروال کہتے ہیں، "میری ہر روز خدا سے بات ہوتی ہے اور بہت جلد میں خدا کے گھر میں سکون سے رہوں گا۔"

کچھ لوگ اپنی جمع پونجی اور بعض عزیز و اقارب کو ساتھ لا کر یہاں قیام کرتے ہیں۔ یہاں طبی سہولت کے مراکز بھی قائم ہیں، تاہم یہاں موت ایسی چیز نہیں ہے کہ جس پر ماتم کیا جائے بلکہ اسے نعمت سمجھا جاتا ہے۔

یہاں آنے والے عقیدت مند سمجھتے ہیں کہ یہاں آ کر اُن کی روحیں زندگی اور موت کے چکر سے آزادی پا لیں گی۔

بہتر سالہ نتھی بائی بھی دو سال قبل وارانسی منتقل ہو گئی تھیں جو مانی کارنیکا شمشان گھاٹ کے قریب اپنی زندگی کے دن گن رہی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ "میں چاہتی ہوں کہ مجھے یہاں موت آئے اور میری راکھ گنگا میں بہا دی جائے تاکہ میری روح کو سکون ملے۔"

نتھی بائی کہتی ہیں کہ جب یہاں لوگوں کو آخری رسومات کے لیے لے جایا جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کو دیوتا کی طرح تخت پر بٹھایا جا رہا ہے۔

اکیانوے سالہ گلاب بائی اپنے شوہر کے ہمراہ 30 برس قبل یہاں آئی تھیں۔ اُن کے شوہر سات برس بعد وفات پا گئے اور اب وہ اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG