فقیر منش اور صوفیانہ صفت، عبدالستار ایدھی کا انتقال جمعہ کی رات سوا گیارہ بجے ’ایس آئی یو ٹی‘ میں ہوا تھا اور چونکہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ بعد از مرگ ان کے اعضاء عطیہ کردیئے جائیں، لہذا ان کی دونوں آنکھوں کے قرنیے ’ایس آئی یو ٹی‘ کے ڈاکٹروں نے انتقال کے کچھ ہی ساعتوں بعد محفوظ کرلیں۔
ان کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور دیکھتے ہی دیکھتے اسپتال کے باہر لوگوں کا جم غفیر جمع ہوگیا، یہاں تک کہ ٹریفک کی روانی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔
ایدھی صاحب کے بڑے صاحبزادے فیصل ایدھی کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ نماز جنازہ ہفتے کی دوپہر بولٹن مارکیٹ میں واقع میمن مسجد میں ادا کی جائے گی، لیکن کچھ گھنٹوں بعد نماز جنازہ کا مقام بدل کر نیشنل اسٹیڈیم کردیا گیا۔ اس وقت تک صرف یہی اندازہ لگایا جارہا تھا کہ لوگوں کی بڑی تعداد جنازے میں شرکت کر سکتی ہے۔ لہذا، جنازہ کسی ایسی جگہ پڑھایا جائے جہاں کم سے کم مسائل پیدا ہوں۔
تاہم، دیر گئے تک اور آج دوپہر تک آنے والی خبروں سے یہ بات واضح ہوئی کہ چونکہ جنازے میں ’وی وی آئی پیز‘ نے شرکت کرنا تھی اس لئے سیکورٹی کو زیادہ اہمیت دی گئی اور یہی سبب تھا کہ مقام تبدیل کیا گیا۔
نصف شب کے بعد جنازہ ایمبولیس میں رکھ کر اسپتال سے سرد خانے منتقل کیا گیا جبکہ ہفتے کی علی الصبح عام لوگوں، اہل خانہ، عزیز و اقارب، ہمدردوں، عقیدت مندوں اور ایدھی ہومز کے ہزاروں ملازمین کے آخری دیدار کے لئے ایدھی صاحب کی میت میٹھادر میں واقع ان کی رہائش گاہ منتقل کی گئی۔
اس دوران رات بھر رہائش گاہ پر عام لوگوں اور معروف شخصیات کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ انگنت لوگوں نے فیصل ایدھی اور دیگر اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا۔
صبح دس بجے سے بھی پہلے فیصل ایدھی نے اپنے والد کو آخری غسل دیا۔ انہوں نے ہی میت کی باقی تیاریاں بھی از خود انجام دیں۔
غسل کے بعد رہائش گاہ کی نچلی منزل پر جس ایدھی صاحب اپنے دفتر کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے اور بڑی سے بڑی اور اہم سے اہم شخصیات سے بھی اسی جگہ ملاقات کرتے تھے، اس جگہ ان کی میت عام و خاص لوگوں کے دیدار کے لئے رکھ دی گئی۔
لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے ایدھی صاحب کی میت کا آخری دیدار کیا۔ لوگوں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دیدار کا سلسلہ تین گھنٹے سے ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہا۔
ساڑھے بارہ بجے سے ایک بجے کے درمیان ایک ایمبولینس میں ان کا جسد خاکی رکھا گیا، جبکہ کچھ اور ایمبولیسز بھی سپورٹ کے لئے راستے بھر موجود رہیں۔ نیول پولیس کے اسکواڈ کی رہنمائی میں جنازہ نیشنل اسٹیڈیم کے لئے روانہ ہوا۔ اس دوران جگہ جگہ رینجرز اور پولیس نے سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے ہوئے تھے یہاں تک کہ رہائش گاہ کو بھی پوری طرح سیکورٹی حصار میں لیا گیا تھا۔
ایک بجے کے قریب جسد خاکی نیشنل اسٹیڈیم پہنچا تو پاکستان فوجی نوجوانوں اور کمانڈوز نے اس کے گرد حفاظتی حلقہ بنا لیا اور میت روایتی سرکاری اعزاز کے ساتھ میدان میں لائی گئی۔
اس وقت اسٹیڈیم میں ملک بھر کی تمام اہم فوجی اور اعلیٰ سول شخصیات موجود تھیں۔ اسٹیڈیم میں سیکورٹی کا یہ عالم تھا کہ ہر چیز اہلکاروں کی نظر میں تھی جبکہ لوگوں کی آمد سے بھی بہت پہلے اس ہر اچھی طرح چیک کرنے کے بعد ہر خطرے سے کلیئر اور محفوظ قرار دے دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود نگرانی جاری تھی۔
اس قدر سخت سیکورٹی، پابندیوں اور ’وی وی آئی پی‘ موومنٹ کا ایک اثر یہ ہوا کہ عام لوگوں کی بہت بڑی تعداد خواہش کے باوجود نماز جنازہ میں شرکت نہ کرسکی کیوں کہ اسٹیڈیم جانے والے راستوں پر رات گئے سے ہی رینجرز تعینات کردی گئی تھی۔ ایکسپو سینٹر، چائنہ گراؤنڈ اور اسپورٹس کمپلیکس پارکنگ کے لئے مخصوص تھے۔ کسی بھی گاڑی کو اس سے آگے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جتنے لوگ بھی اسٹیڈیم تک پہنچ سکے انہیں کافی دور تک پیدل چلنا پڑا۔
اسٹیڈیم کےگیٹ نمبر4 سے سات تک عوام کے داخلے کے لئے مخصوص تھے جبکہ میڈیا کو گیٹ نمبر 11 اور 12 سے ہی اندر جانے کی اجازت ملی تھی۔
نماز جنازہ ایک بجے کے آس پاس مولانا احمد خان نیازی کی امامت میں ادا کی گئی جس میں صدر ممنون حسین، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، کور کمانڈر، ڈی جی رینجرز، آئی جی پیز اور دیگر اہم شخصیات شریک ہوئیں۔
ابتدا میں بتایا گیا کہ جنازہ لیاری ایکسپریس وے کے راستے ایدھی ویلیج پہنچے گا۔ تاہم، بعد میں سیکورٹی اقدامات کو ترجیح دیتے ہوئے اس روٹ میں تبدیلی کردی گئی۔
ساڑھے تین بجے سے چار بجے کے درمیان میت ایدھی ویلیج پہنچی۔ میت کو قومی اعزاز کے ساتھ لایا گیا تھا اس لئے فوجی نوجوانوں نے تابوت کو کاندھا دیا۔ تابوت قومی پرچم میں لپیٹا گیا تھا، جبکہ جس گاڑی پر تابوت لایا گیا اس پر بھی قومی پرچم لپٹا ہوا تھا۔
عبدالستار ایدھی کے اپنے ہاتھوں 25سال پہلے تیار کی گئی قبر کے سرہانے میت رکھی گئی اور فوجی آداب بجا لائے گئے۔ تابوت کھولا گیا اور نہایت ادب و احترام سے جنازہ قبر میں اتارہ گیا۔ اس موقع پر فیصل ایدھی لحد میں اترے اور باقی رسومات اپنے ہاتھوں ادا کیں۔
قبر پر سلیب اور بعد ازاں مٹی ڈال کر اسے بند کردیا گیا۔ پھولوں کی چادریں چڑھائی گئیں اور پھر باری باری فوجی آداب، روایات اور رائج طریقوں کے مطابق ملک کی اہم ترین سول و فوجی شخصیات کی جانب سے باری باری پھول چڑھائے گئے۔
اس موقعے پر فوجی نوجوانوں نے گن سیلوٹ بھی پیش کیا اور سلامی بھی دی۔ مرحوم کی خدمات کے اعتراف میں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا۔ اس وقت مرحوم عبدالستار ایدھی ابدی نیند سو رہے ہیں اور ان کے انگنت چاہنے والے دعاگو ہیں کہ انہیں کروٹ کروٹ چین نصیب ہو۔