رسائی کے لنکس

نائن الیون کی پلی ڈیلز کی منسوخی سے متعلق پنٹاگان کے سربراہ کا فیصلہ مسترد


 امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن ، فائل فوٹو
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن ، فائل فوٹو
  • ایک امریکی فوجی اپیل کورٹ نے امریکی وزیر دفاع کی جانب سے نائن الیون حملوں کے مدعا علیہان کے لیے طے کردہ پلی ڈیلز کو مسترد کرنے کے خلاف فیصلہ دے دیا۔
  • پیر کی رات کے فیصلے سے وہ پلی ڈیلز بحال ہو گئی ہیں جو مجرم ٹھہرائے گئے ان تین اشخاص کو اعتراف جرم کے بدلے سزائے موت کے امکان سے بچا سکتی تھیں۔
  • آسٹن کے پاس پلی ڈیلز کی منسوخی کی اپنی کوشش کو ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سرکٹ کی امریکی اپیلز کورٹ میں پیش کرنے کا راستہ موجود ہے۔

امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ ایک فوجی عدالت نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کی جانب سے نائن الیون کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد اور دو دوسرے مدعا علیہان کے لیے طے کی گئیں پلی ڈیلز کو منسوخ کرنے کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔

اس فیصلے سے وہ پلی ڈیلز بحال ہو گئی ہیں جو امریکہ پر ایک مہلک ترین حملے کا اعتراف جرم کرنے والے تین اشخاص کو موت کی سزا سے بچا سکتی تھیں۔

ایک امریکی عہدے دار نے، جو اس معاملے پر گفتگو کرنے کے مجاز نہیں تھے اپنا نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فوجی اپیل کورٹ نے فیصلہ جاری کر دیا ہے۔

پلی ڈیلز کیا تھیں?

امریکہ میں تمام فوجداری مقدمےسماعتوں پر ختم نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے کچھ کو استغاثہ کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ پلی ڈیلز کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔ امریکہ کے فوجداری نظام میں مدعا علیہان کو یہ اجازت دی جاتی ہے کہ وہ شرائط طے کرکے اعتراف جرم کر لیں یعنی پلی ڈیل کر لیں تو ان پر الزامات کی نوعیت نرم کر دی جاتی ہے ۔

گوانتانامو بے کے قیدیوں کی یہ پلی ڈیلز یا مقدمےسے قبل طے پانے والے معاہدے فوجی پراسیکیوٹرز اور حملوں کے ملزم ٹھہرائے گئے سرغنہ خالد شیخ اور دو شریک مدعا علیہان ولید بن عطش اور مصطفیٰ الحوساوی کے وکلائے دفاع کے درمیان حکومت کی دو سال تک منظور شدہ گفت و شنید کے بعد طے پائے تھے۔

ان ڈیلز کے مطابق ملزمان کو نائن الیون کے حملوں کا اعتراف کرنے کے بدلے سزائے موت کی بجائے عمر قید کاسامنا ہو گا۔ ان ڈیلز کا اعلان گزشتہ موسم گرما میں کیا گیا تھا۔

یہ معاہدے کیوں طے ہوئے؟

اس کی وجہ ان ملزمان کے خلاف کیس میں الجھاؤ تھا۔ خاص طور پر اس حوالے سے کہ اپنی گرفتاری کے پہلے برسوں میں وہ سی آئی اے کے زیرحراست تھے اور اس حوالے سے یہ قانونی پہلو سامنے آتا تھا کہ سی آئی اے کی زیر حراست ان کے خلاف اذیت رسانی کسی طرح مقدمے کے مجموعی ثبوتوں پر تو اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ اور ان بری ڈیلز کا بیشتر حصہ اسی بات پر مرکوز تھا۔

پلی ڈیلز کے حامیوں نے انہیں گوانتانامو بے، کیوبا کے بحری اڈے کے امریکی فوجی کمیشن کی جانب سے ان افراد کے خلاف الجھے ہوئے مقدمے کو قانونی طور پر حل کرنے کا ایک طریقہ سمجھا۔

خالد شیخ، ولید بن عطش اور مصطفیٰ الحوساوی کے خلاف دس سال سے زیادہ عرصے سے قانونی کارروائی جاری تھی۔

اس موسم گرما میں پلی ڈیلزکی خبر منظرعام پر آنے کے چند روز کے اندر، آسٹن نے ایک مختصر حکم جاری کیا کہ وہ انہیں منسوخ کر رہے ہیں۔

پلی ڈیلز کیوں منسوخ کی گئیں؟

لائیڈ آسٹن نے نائن الیون حملوں کی سنگینی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسی پلی ڈیلز جو مدعا علیہان کو سزائے موت کے امکان سے بچا سکتی ہوں ان کے بارے میں فیصلہ، وزیر دفاع کے طور پر انہیں خود کرنا چاہئیے۔

وکلائے دفاع نے کہا کہ آسٹن کو گوانتانامو بے کی عدالت کی اعلیٰ ترین اتھارٹی کی جانب سے پہلے سے منظور کیے گئے کسی فیصلے کو مسترد کرنے کا قانونی حق حاصل نہیں تھا اور انہوں نے کہا کہ یہ اقدام کیس میں غیر قانونی مداخلت کے زمرے میں آتا ہے۔

عدالت کا فیصلہ

نائن الیون کیس کی سماعت کرنے والے فوجی جج، ائیر فورس کرنل میتھیو میک کال اس بات پر متفق ہو چکے تھے کہ آسٹن کے پاس اقبال جرم کی ڈیلز کو ایسے میں مسترد کرنے کا اختیار نہیں تھا جب کہ ان پر کام جاری تھا۔ اس کے نتیجے میں محکمہ دفاع نے فوجی اپیل کورٹ میں اپیل کی تھی۔

آسٹن کے پاس اب کونسا راستہ موجود ہے ؟

آسٹن کے پاس اب یہ راستہ موجود ہے کہ وہ پری ڈیلز کی منسوخی کی اپنی کوشش کو ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سرکٹ کی امریکی اپیلز کورٹ میں پیش کریں ۔پینٹاگان نے تبصرے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔

پینٹاگان نے الگ سے کہا ہے کہ اس نے گوانتانامو بے میں طویل عرصے سے قید تیونس کے ایک قیدی کو اس کے وطن واپس بھیج دیا ہے جس کی منتقلی کی منظوری حکام دس سال سے زیادہ عرصہ قبل دے چکے تھے۔

رضا بن صالح یزیدی کی تیونس واپسی کے بعد گوانتانامو بے میں 26 قیدی باقی بچے ہیں۔ یہ تعداد 11 ستمبر کے حملوں کے بعد کے برسوں میں بیرون ملک سے گرفتار کیے گئے اور گوانتانامو بے جیل میں لائے گئے مسلمان مردوں کی سب سے زیادہ تعداد سے، جو تقریباً 700 تھی، کافی کم ہے۔

الیزید ی کی وطن واپسی کے بعد 14 ایسے قیدی بچے ہیں جو امریکی حکام کی جانب سے انہیں کسی بھی مقدمے سے استثنیٰ اور سیکیورٹی رسک سے مبرا قرار دیے جانے کے بعد دوسرے ملکوں میں منتقلی کے منتظر ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ نے، گوانتانامو بے میں بغیر کسی الزام کے قید باقی قیدیوں کی رہائی کے لیے حقوق گروپس کی جانب سے دباؤ کے بعد، اس ماہ تین دوسرے قیدیوں کو وہاں سے باہر منتقل کر دیا ہے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ ایسے موزوں اور مستحکم ملکوں کو تلاش کر رہا ہے جو باقی 14 قیدیوں کو اپنے ہاں رکھ لیں۔

امریکی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے تیونس کے حکام کے ساتھ الیزیدی کی ذمہ دارانہ منتقلی کے لیے کام کیا تھا۔ وہ 2002 میں اس وقت سے گوانتانامو بے میں قید تھا، جب سے امریکہ نے بیرونی ملکوں سے گرفتار کیے گئے مسلمان قیدیوں کو وہاں بھیجنا شروع کیا تھا۔

الیزیدی تیونس کے ان ایک درجن قیدیوں میں سے آخری تھا جنہیں کبھی گوانتانامو بے میں قید رکھا گیا تھا۔ گوانتانامو بے میں ابھی تک جن باقی سات قیدیوں کو فعال مقدمات کا سامنا ہے ان میں خالد شیخ اور نائن الیون کے اس کے شریک مدعا علیہان شامل ہیں۔ باقی کل 26 میں سے دو دیگر کو فوجی کمیشن نے مجرم ٹھہرا دیا ہے اور سزا سنا دی ہے۔

گیارہ ستمبر 2001 کو امریکہ پر القاعدہ کے حملوں میں لگ بھگ 3 ہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے اور وہ افغانستان اور عراق پر اس جنگ میں امریکی حملوں کا موجب بنے تھے جسے جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیا تھا۔

اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG