امریکی کوسٹ گارڈ نے اعلان کیا ہے کہ بحر اوقیانوس میں لا پتہ ہونے والی سب میرین ممکنہ طور پر ٹائیٹینک کے ملبے کے قریب پھٹ گئی ہے اور کسی کے زندہ بچنے کا امکان نہیں۔
بحراوقیانوس میں لاپتا ہونے والی آبدوز ٹائیٹن کی کمپنی اوشن گیٹ ایکسپیڈیشن نے ایک بیان میں کہا کہ کمپنی کے سی ای او اسٹاکٹن رش سمیت جہاز میں موجود تمام پانچ افراد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
کوسٹ گارڈ کے حکام نے جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ انہوں نے ٹائٹن پر سوار پانچوں افراد کے اہل خانہ کو مطلع کر دیا ہے ۔ فرسٹ کوسٹ گارڈ ڈسٹرکٹ کے رئیر ایڈمرل جان ماؤگر نے کہا ہے کہ ٹائیٹینک کی باقیات کے قریب ملنے والا ملبہ آب دوز کے پھٹنے سے مطابقت رکھتا ہے۔
ٹائیٹینک کا ملبہ دکھانے کے لیے یہ ٹائیٹن کا تیسرا سفر تھا۔ جس کے مسافروں میں دو ارب پتی پاکستانی شہزادہ داؤد اور ان کا بیٹا سلمان داؤد، دبئی میں کاروبار کرنے والا ایک برطانوی بزنس مین ہیمش ہارڈنگ، ٹائٹینک پر تحقیق کرنے والے ایک فرانسیسی ماہر پال ہنری نارگیولٹ اور پانچویں آب دوز کے پائلٹ اسٹاکن رش شامل تھے۔
اس سے قبل بحراقیانوس کی گہرائیوں میں غائب ہونے والی آب دوز ٹائیٹن کو تلاش کرنے والوں کو اس مقام کے قریب جہاں اپنے زمانے کے عظیم بحری جہاز ٹائیٹینک کی باقیات پڑی ہیں، پانی کی تہہ میں ملبے کا ایک ڈھیر دکھائی دیا تھا۔
امریکی کوسٹل گارڈ نے کہا تھا کہ وہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آیا اس ملبے کا لاپتہ ہونے والی آبدوز ٹائیٹن سے کوئی تعلق ہے۔
اس سے قبل ماہرین نے بتایا تھا کہ ان کے اندازوں کے مطابق ٹائیٹن میں آکسیجن ختم ہو گئی ہے اور اس کے اندر موجود کسی کے بھی زندہ رہنے کا امکان تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ جب آبدوز اپنے سیاحتی اور مہماتی سفر پر روانہ ہوئی تو اس میں پانچ دن کے استعمال کے لیے آکسیجن کا ذخیرہ موجود تھا۔ اسے گم ہوئے اب پانچ دن ہو چکے ہیں۔
ٹائیٹن کا زمین سے رابطہ اپنی روانگی کے محض ایک گھنٹے اور 45 منٹ کے بعد ہی ٹوٹ گیا تھا۔ جس کے فوراً بعد اس کی تلاش کا کام شروع کر دیا گیا جس میں ہر آنے والے دن کے ساتھ تیزی سے اضافہ ہوتا گیا اور کئی ملک اور گروپ اپنے ماہرین اور جدید ترین آلات اور وسائل کے ساتھ اس مہم میں شامل ہوتے گئے۔
جمعرات کو، جب کہ اندازوں کے مطابق ٹائیٹن میں آکسیجن ختم ہونے میں چند ہی گھنٹے باقی رہ گئے تھے، فرانس کا ایک جدید ترین غوطہ خور روبوٹ بھی تلاش کی کوششوں میں شامل کر دیا گیا۔
وکٹر نامی یہ غوطہ خور روبوٹ سمندر میں 6000 میٹر کی گہرائی تک تحقیق اور تلاش کا کام بہتر طور پر سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس میں جدید ترین کیمرے، انتہائی تیز روشنیاں اور کھوج لگانے والے آلات نصب ہیں۔ اس کا مشینی ہاتھ بھی ہےجس کے ذریعے چیزوں کو پکڑا اور اٹھایا جاسکتا ہے اور روبوٹ کی مدد سے سمندر سے کسی چیز کو نکالنے کے لیے اسے رسے سے باندھا بھی جا سکتا ہے۔
تلاش کی مہم میں حصہ لینے کے لیے یہ روبوٹ 48 گھنٹے کی مسافت کے بعد وہاں پہنچا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹائیٹینک کی باقیات کے قریب ملبے کے ڈھیر کا کھوج بھی وکٹر نے ہی لگایا ہے۔
( اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)