پاکستان میں بھی بڑی تعداد میں خانہ بدوش سفر کرتے کرتے پڑاؤ اور پھر پڑاؤ سے سفر کے سلسلے کے ساتھ زندگی گزر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ایک حالیہ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے انتھرا پولوجی ڈپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر راؤ ندیم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گلگت بلتستان سے لے کر بحیرہ عرب تک کسی نہ کسی جگہ خانہ بدوش موجود ہیں۔
ڈاکٹر راؤ ندیم کے بقول شمالی علاقہ جات میں گجر بکر وال خانہ بدوش موجد ہیں جو بھیڑ بکریاں پالتے ہیں اور ان پر ہی اپنی زندگی کا انحصار کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بحیرہ عرب کے قریب جاٹ موجود ہیں جو اونٹ پالتے ہیں۔ تھر پارکر میں گائے پالنے والے ہندو خانہ بدوش بھی ہیں۔ افغانستان کی سرحد کے ساتھ کوچی خانہ بدوش نظر آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان خانہ بدوشوں کی تعداد کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیوں کہ ان کے حوالے سے کسی بھی سطح پر اعداد و شمار جمع نہیں کیے گئے۔
سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) جنگلات اور خانہ بدوشوں کے امور کے ماہر ڈاکٹر محمود ناصر نے وائس آف امیریکہ کو پوٹھوہار اور گلگت کے درمیان سفر اور پڑاؤ کرنے والے گجر بکر وال خانہ بدوشوں کے حوالے سے بتایا کہ یہ لوگ پوٹھوہار کے علاقوں میں سردیاں گزارتے ہیں جبکہ گرمیوں میں جب پہاڑوں پر برف پگھلتی ہے تو اپنے خاندانوں اور مویشیوں ہمراہ سیکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے 14 ہزار فٹ اونچی چراگاہوں میں جا کر پڑاؤ ڈالتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مدتوں سے ہجرت کے اس مستقل سفر میں گجر بکر وال خانہ بدوش زندگی کے بہت سے رموز اور پوشیدہ علوم سیکھ چکے ہیں۔
ڈاکٹر محمود ناصر نے کہا کہ یہ خانہ بدوش کھلی چراگاہوں میں قدرتی انداز سے چرنے والے اپنے مال مویشیوں کا آرگینک دودھ اور گوشت جس کی آج کل بہت مانگ ہے، انتہائی سستے داموں فروخت کرتے ہیں اور اس طرح پاکستان کے لوگوں کی صحت کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت میں بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان خانہ بدوشوں کو حکومت کی طرف سےکوئی بنیادی سہولت مثلا ً پینے کا صاف پانی، علاج معالجہ کی سہولیات، یا تعلیم نہیں ملتی۔
انجمن آل گجر بکر وال خانہ بدوش کے سربراہ حنیف پروانہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان میں دودھ، گوشت، اون اور چمڑے کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
حنیف پروانہ کے بقول ان کے مسائل کوئی نہیں حل کرتا۔
انہوں نے کہا کہ جن راستوں پر وہ سیکڑوں سال سے سفر اور پڑاؤ کر رہے تھے اب انہیں وہاں پابندیوں اور رکاوٹوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے انہیں اب صرف رات کو سفر کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھیڑ بکریوں اور مال مویشیوں کے ساتھ اس طویل پیدل سفر کے دوران ان کو صحت کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہوتی جس کے نتیجے میں ان کی کئی خواتین اور بچے پیدائش کے عمل کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
انجمن آل گجر بکر وال خانہ بدوش کے سربراہ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں بھی پاکستان کے عام شہریوں کی طرح عزت اور وقار سے رہنے کا حق دیا جائے۔ انہیں ان کے قدرتی اور ہزاروں سال پرانے راستوں پر سفر اور پڑاؤ سے نہ روکا جائے اور دنیا کے دوسرے ملکوں کے خانہ بدوشوں کی طرح انہیں بھی موبائل ہیلتھ یونٹس اور موبائل اسکولوں کی سہولت دی جائے۔
حنیف پروانہ کی شریک حیات اور گجر بکر وال انجمن کی اہم رکن زبیدہ بی بی نے قبیلے کی شادی بیاہ کی روایات کے حوالے سے بتایا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو جہیز میں اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں دیتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس انہیں دینے کے لیے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر راؤ ندیم بتاتے ہیں کہ انہیں تعلیم دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کالجز اور جامعات کے طالب علم گرمیوں یا سردیوں کی چھٹیوں میں ان کے پڑاؤ والے علاقوں میں جا کر رضاکارانہ طور پر بچوں کو پڑھائیں۔
ڈاکٹر ندیم راؤ یہ بھی ضروری قرار دیتے ہیں کہ ان خانہ بدوشوں کو تعلیمی سرٹیفیکٹس دینے کا بھی کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جائے اور جب تک ایسا ممکن نہیں ہوتا تو خانہ بدوشوں کو نصابی کتابوں کا حصہ ضرور بنایا جائے۔
سابق آئی جی جنگلات محمود ناصر کہتے ہیں کہ قدرت نے جنگلات، میدانوں، جانوروں اور انسانوں کا ایک نظام بنایا ہے۔ جس کا ہمیں احترام کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں خانہ بدوشوں کے حقوق اور ان کے کلچر کا احترام کیا جاتا ہے اور یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ جن قدیم راستوں پر یہ مدتوں سے سفر کرتے آئے ہیں۔ ان پر ان کا بھی حق ہے۔
محمود ناصر کے مطابق چین نے تو ملک کے خانہ بدوشوں کے لیے ایک قانون منظور کر لیا ہے جس کے تحت ان کے سفر کے قدیم راستوں کے مقامات کے موجودہ مالکان پر یہ پابندی عائد ہے کہ وہ ان مقامات پر نہ تو کوئی مکان یا عمارت تعمیر کریں گے اور نہ ہی باغات یا کھیت بنائیں گے اور جب یہ خانہ بدوش ان مقامات پر پڑاؤ ڈالیں گے تو ان کو 15 دن تک وہاں مفت رہنے کی اجازت ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہ نیپال، سوئیڈن اور کچھ دوسرے ممالک میں بھی خانہ بدوشوں کے حقوق سے متعلق ایسے قوانین بن چکے ہیں اور پاکستان میں بھی ایسے قوانین تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔