|
ویب ڈیسک--ترکیہ کے شہر استنبول میں بڑی تعداد میں مظاہرین نے آوارہ کتوں کو گلیوں سے ہٹانے کے منظور کیے گئے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اتوار کو کیے گئے احتجاج میں شریک افراد کا کہنا تھا کہ نئے قانون کے تحت ترکیہ میں موجود آوارہ کتوں کو مار دیا جائے گا۔
ترکیہ میں گزشتہ ماہ قانون سازوں نے ایک نیا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت آوارہ کتوں کو ملک کی گلیوں سے ہٹا دیا جائے گا۔ اس قانون کی منظوری کی وجہ انسانوں کا تحفظ بتایا گیا ہے۔
دوسری جانب جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے تحت بڑی تعداد میں آوارہ کتوں کو ہلاک کیا جا سکتا ہے یا ان کو جانوروں کی ایسی پناہ گاہوں میں رکھا جائے گا جہاں پہلے ہی جانوروں کی بھیڑ ہے اور وہاں ان میں بیمارہاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ ملک میں آوارہ کتوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے نیا قانون اہم ہے۔
اتوار کو استنبول میں ہونے والے احتجاج میں مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ آوارہ کتوں سے متعلق قانون کو تبدیل کیا جائے۔ مظاہرین نے ایسے پوسٹر اٹھائے ہوئے تھے جن پر 'شیلٹرز موت کے کیمپ ہیں' اور 'خونی قانون واپس لو' کے مطالبات درج تھے۔
احتجاج میں شریک 64 برس کے حسن کیزیلیتک کا 'اے پی' سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس قانون کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔
ان کے بقول آوارہ کتے بھی زندہ مخلوق ہیں۔ ہم یہاں اس لیے ہیں کیوں کہ ان کو فنا نہ کیا جائے۔
قانون پاس ہونے کے دو ہفتوں کے بعد ترکیہ کی حزبِ اختلاف کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی نے ملک کی آئینی عدالت میں اس کے خلاف اپیل دائر کر دی تھی۔
حکومت کے اندازے کے مطابق ملک بھر میں لگ بھگ 40 لاکھ آوارہ کتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر آوارہ کتے خطرناک نہیں ہیں البتہ ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں آوارہ کتوں نے لوگوں خاص طور پر بچوں پر حملے کیے ہیں۔
آوارہ کتوں کو راستوں سے ہٹانے کی مہم چلانے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'سیف اسٹریٹ اینڈ ڈیفنس آف رائٹ ٹو لائف ایسوسی ایشن' کا کہنا ہے کہ سال 2022 سے آوارہ کتوں کے حملوں کے سبب 65 اموات ہو چکی ہیں۔
نئے قانون کے تحت بلدیاتی اداروں کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ آوارہ کتوں کو پکڑ کر شیلٹر ہوم لے جائیں گے جہاں ان کو ویکسین دی جائے گی اور انہیں پالنے کے لیے محفوظ بنایا جائے۔
اس قانون کے تحت ایسے آوارہ کتوں کو مار دیا جائے گا جو بیماری کے سبب تکلیف میں ہوں یا ان سے انسانوں کو کسی قسم کا خطرہ ہو۔
اس قانون کی ڈرافٹنگ کے وقت اس میں بلیوں کا بھی ذکر تھا۔ لیکن بعد ازاں عوامی سطح پر شدید ردِ عمل کے سبب اس سے بلیوں کا ذکر نکال دیا گیا۔
اب بھی یہ سوال موجود ہے کہ بلدیاتی ادارے ان کتوں کے لیے شیلٹر یا دیگر انتظامات کے لیے رقوم کیسے فراہم کریں گے کیوں کہ ان کو پہلے ہی مالی مشکلات کا سامنا ہے۔
جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکار اندیشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ مالی مسائل کے شکار بلدیاتی ادارے پناہ گاہوں پر رقوم خرچ کرنے کے بجائے آوارہ کتوں کو بیمار قرار دے کر مار دیا جائے گا۔
(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)