رسائی کے لنکس

گورونانک کے جنم دن کی تقریبات؛ 'کرونا سے صحت یابی پر ننکانہ صاحب میں ماتھا ٹیکنے کا عہد کیا تھا'


پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ننکانہ صاحب اور کرتار پور جا کر اُنہیں روحانی احساس ہوتا ہے۔ ایسا سکون ملتا ہے جو دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتا۔
پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ننکانہ صاحب اور کرتار پور جا کر اُنہیں روحانی احساس ہوتا ہے۔ ایسا سکون ملتا ہے جو دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتا۔

بھارتی پنجاب کی رہائشی خاتون کرن جیت کور ان دنوں پاکستان آئی ہوئی ہیں۔ وہ سکھ زائرین کے ہمراہ بھارت سے آنے والے گروپ میں امرتسر سے رواں ماہ 17 اکتوبر کو براستہ واہگہ لاہور پہنچی تھیں۔

کرن جیت کور بتاتی ہیں کہ ان کی عمر 45 برس ہے۔ اُنہیں اور اُن کےشوہر کو گزشتہ سال کرونا ہو گیا تھا جس کے باعث وہ دونوں تین ہفتے اسپتال میں داخل رہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کرن جیت کور نے بتایا کہ بیماری کے دوران اُنہوں نے بابا گورو نانک دیو جی سے دعا کی کہ اُنہیں جلد صحت یاب کر دے جس کے بعد وہ ماتھا ٹیکنے ننکانہ صاحب پاکستان جائیں گی۔

کرن جیت کور نے بتایا کہ ابھی وہ اپنے شوہر کےساتھ اسپتال میں ہی داخل تھیں کہ خبر آئی کہ کرونا وبا کی وجہ سے کرتارپور راہداری کو بند کر دیا گیا ہے اور حکومت کی جانب سے واہگہ کے راستے بھی پاکستان جانے کی اجازت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب اُنہوں نے یہ خبر سنی تو وہ اداس ہو گئیں اور سوچنے لگیں کہ اُن کی زندگی میں بابا جی کی حاضری ہے یا نہیں؟

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ وہ دل ہی دل میں سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گورو نانک دیو جی سے دعا کرتیں کہ اِس دنیا سے جانے سے پہلے ایک مرتبہ ننکانہ صاحب ماتھا ٹیکنے کے لیے ضرور بلانا۔

ان کے بقول گزشتہ برس جب کرتار پور راہداری اور واہگہ بارڈر کرونا وبا کی وجہ سے بند تھے تو اُنہوں نے پاکستان جانے کی تمام تر امیدیں چھوڑ دیں تھیں۔

رواں سال دنیا بھر میں بسنے والے سکھ برادری، سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک دیو جی کی 552ویں جنم دن کی تقریبات منا رہے ہیں۔

جنم دن کی مرکزی تقریبات 19 نومبر سے ننکانہ صاحب میں ہو رہی ہیں جس میں پالکی کا جلوس، لنگر کی تقسیم، ماتھا ٹیکنا، اشنان اور دیگر رسومات شامل ہیں۔

سکھ مذہب کے ماننے والوں کے مطابق اس جگہ پر سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گورونانک دیو جی نے اپنی عمر کے آخری ایام گزارے تھے۔
سکھ مذہب کے ماننے والوں کے مطابق اس جگہ پر سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گورونانک دیو جی نے اپنی عمر کے آخری ایام گزارے تھے۔

کرن جیت کور کے بقول رواں سال جب اُنہیں علم ہوا کہ حکومت پاکستان جانے کی اجازت دے سکتی ہے تو انہوں نے اپنے شوہر کے ہمراہ ویزا کی درخواست دینے میں دیر نہیں لگائی اور دل ہی دل میں ویزے کی منظوری کے لیے دعا کرنے لگیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ جب اُن کا ویزا منظور ہو گیا تو اُن کی خوشی کی حد نہ رہی۔ کیوں کہ اُن کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ سکھ مذہب کے بانی بابا گورنانک دیو جی کے حضور ماتھا ٹیکنا ہے اور لنگر چکھنا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتار پور راہداری کم وبیش 20 ماہ بعد کھول دی گئی ہے۔ کرونا وائرس کے باعث راہداری کو بھارتی حکومت نے اپنی حدود میں 16 مارچ کو بند کیا تھا۔ کرتارپور راہداری بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کے لیے بغیر ویزا (ویزہ فری) سرحدی راستہ ہے۔اس راہداری سے گزر کر سکھ مذہب کے ماننے والے گوردوارہ دربار صاحب آتے ہیں۔

سکھ مذہب کے ماننے والوں کے مطابق اس جگہ پر سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گورونانک دیو جی نے اپنی عمر کے آخری ایام گزارے تھے۔

کرن جیت کور کے خاوند ہرمیندر سنگھ بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے پاکستان آ کر سب سے پہلے شکر ادا کیا کہ وہ مقدس زمین پر پہنچ گئے ہیں۔

اپنی بیماری کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ وہ اپنی بیوی کو سمجھتاتے تھے کہ پریشان نہ ہو۔ بابا جی اُنہیں ضرور حاضری کا موقع دیں گے۔

ہرمیندر سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دنیا بھر میں بسنے والے سکھ برادری کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ بابا جی کے ہاں ماتھا ٹیکنا اور لنگر چکھنا۔

کرن جیت کور کے خاوند ہرمیندر سنگھ بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے پاکستان آ کر سب سے پہلے شکر ادا کیا کہ وہ مقدس زمین پر پہنچ گئے ہیں۔
کرن جیت کور کے خاوند ہرمیندر سنگھ بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے پاکستان آ کر سب سے پہلے شکر ادا کیا کہ وہ مقدس زمین پر پہنچ گئے ہیں۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقے میں بہت سے لوگ کرونا وبا کی زد میں آ ئے تھے جن میں سے اکثریت صحت یاب ہو چکے ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ہرمیندر سنگھ نے کہا کہ پاکستان میں ننکانہ صاحب اور کرتار پور جا کر اُنہیں روحانی احساس ہوتا ہے۔ ایسا سکون ملتا ہے جو دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتا۔

بھارت ہی سے آئے ایک اور سکھ یاتری دلبر سنگھ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی سرکاروں کے درمیان تناؤ رہنا ایک معمول کی بات ہے جسے اسی صورت کم کیا جا سکتا ہے کہ عام لوگوں کا میل جول بڑھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے دلبر سنگھ نے کہا کہ دونوں ممالک کی عوام ایک دوسرے کو ٹی وی اسکرینوں پر دیکھتے ہیں جس میں دونوں طرف سے سیاست دان ہمیشہ تناؤ کی بات کرتے ہیں۔ لیکن عوام ہمیشہ پیار اور محبت بڑھانے کی بات کرتی ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے دلبر سنگھ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی سرکار کو مذہبی رسومات کی ادائیگی کے علاوہ بھی مختلف وفود کی سطح پر ایک دوسرے کی عوام کو ملنے جلنے دینا چاہیے تا کہ امن کی فضا قائم ہو۔

بھارت ہی سے آئے ایک اور سکھ یاتری دلبر سنگھ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی سرکاروں کے درمیان تناؤ رہنا ایک معمول کی بات ہے۔
بھارت ہی سے آئے ایک اور سکھ یاتری دلبر سنگھ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی سرکاروں کے درمیان تناؤ رہنا ایک معمول کی بات ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے خطے میں امن پیدا ہوگا اور عوام کو ایک دوسرے سے زیادہ مضبوط رشتہ قائم ہو گا۔

بابا گورونانک ویلفیئر سوسائٹی پاکستان کے چیئرمین سردار بشن سنگھ کہتے ہیں کہ کرتار پور راہداری اور واہگہ کے راستے بھارت سے سکھ برادری کا پاکستان آنا ایک خوش آئند ہے جس سے دونوں ملکوں کی سکھ برادری کا ایک دوسرے سے رشتہ مزید مضبوط ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سردار بشن سنگھ نے کہا کہ اب چوں کہ پوری دنیا میں کرونا وائرس کم ہوتا جا رہا ہے جس کے بعد معمولاتِ زندگی آہستہ آہستہ بحال ہو رہے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے اس سے بڑی سعادت اور کوئی نہیں ہے کہ وہ ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں سکھوں کا مقدس شہر ہے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کرتار پور راہدری کے ذریعے بھات سے سکھ یاتری صبح نو بجے پاکستان آنا شروع کر دیتے ہیں جس کے بعد وہ بابا گورونانک دیو جی کی جائے وفات پر ماتھا ٹیکتے ہیں۔ لنگر کھاتے ہیں اور دعا کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔

چیئرمین بابا گورونانک ویلفیئر سوسائٹی سردار بشن سنگھ بتاتے ہیں کہ جس طرح دنیا کے مختلف ملکوں سے مسلمان زیارتوں کے لیے عراق، ایران، شام اور ترکی جاتے ہیں۔ ہندو برادری کے لوگ کیرتھا (زیارتوں) کے لیے بھارت جاتے ہیں۔ اِسی طرح دنیا بھر کے سکھ پاکستان کو مذہبی لحاظ سے ایک مقدس مقام سمجھتے ہیں۔

دلبر سنگھ کی رائے میں دونوں طرف آنے والی نسلوں کو پیار اور محبت کا ماحول ملنا چاہیے۔
دلبر سنگھ کی رائے میں دونوں طرف آنے والی نسلوں کو پیار اور محبت کا ماحول ملنا چاہیے۔

سردار بشن سنگھ سمجھتے ہیں کہ کرونا وائرس کے باعث بھارت کی حکومت کی جانب سے کرتار پور راہدری کو بند کرنا ایک غلط فیصلہ تھا۔

اُن کی رائے میں اِس کو محدود کیا جا سکتا تھا تا کہ لوگوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔

متروکہ وقف املاک بورڈ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی راستے واہگہ کے راستے 2700 سکھ زائرین پاکستان پہنچے ہیں جب کہ پاکستان کی جانب سے 3000 بھارتی سکھ زائرین کو ویزے جاری کیے گئے تھے۔

بابا گرونانک کے 552ویں جنم دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے بھارت سے سکھ یاتریوں کی واہگہ سرحد کے راستے پاکستان آمد ہوئی۔

دنیا بھر سے سکھ زائرین مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے بزریعہ ہوائی جہاز بھی پاکستان پہنچے ہیں۔

سکھ یاتری لاہور، ننکانہ صاحب، حسن ابدال اور کرتارپور میں واقع مذہبی مقامات پر جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG