'نوبیل' ایوارڈ کمیٹی نے طفیلی جراثیم سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور ملیریا کا علاج دریافت کرنے والے تین سائنس دانوں کو طب کے شعبے میں 2015ء کے نوبیل انعام کا حق دار قرار دیا ہے۔
اس انعام کے اعلان کے ساتھ ہی رواں سال کے 'نوبیل ایوارڈز' کے فاتحین کے اعلان کے سلسلے کا آغاز ہوگیا ہے جو پورا ہفتہ جاری رہے گا۔
روایت کے مطابق ہر سال دیے جانے والے 'نوبیل پرائز' جیتنے والوں کے ناموں کا اعلان سب سے پہلے طب کے شعبے سے کیا جاتا ہے۔
ایوارڈ کا اعلان سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کے 'کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ' کی نوبیل کمیٹی نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں کیا۔
کمیٹی کے مطابق آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ولیم کیمپ بیل اور جاپان کے ستوشی اومورا کو طفیلی جراثیم سے پیدا ہونے والی بیماریوں 'ریور بلائنڈنیس' اور 'لمفیٹک فلیریاسس' کا علاج دریافت کرنے پر نصف انعام کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔
چین سے تعلق رکھنے والی ٹو یویو باقی کے نصف ایوارڈ کی حق دار قرار پائی ہیں۔ انہیں یہ انعام ملیریا سے مدافعت کی اہم دوا 'آرٹی میسی' دریافت کرنے پر دیا گیا ہے جس کےنتیجے میں ملیریا سے ہونے والی اموات میں نمایاں کمی آئی ہے۔
ٹو یویو طب کے شعبے میں 'نوبیل' ایوارڈ حاصل کرنے والی چین کی پہلی سائنس دان اور تاریخ کی 13 ویں خاتون ہیں۔
ایوارڈ کا فیصلہ کرنے والی نوبیل کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تین ارب سے زائد انسان ان بیماریوں کا شکار ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں جن کا اعلان ان تینوں سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے۔
بیان کے مطابق ان دونوں دریافتوں کے نتیجے میں نوعِ انسانی کو مذکورہ بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے نئے طریقے میسر آئے ہیں جن سے ہر سال لاکھوں افراد مستفیض ہوں گے۔
ولیم کیمپ بیل اور ستوشی اومورا کی دریافت کردہ دوا کو 'راؤنڈ وارم' نامی طفیلی جراثیم سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔
بیان کے مطابق یہ دوائیں اتنی کامیاب ثابت ہوئی ہیں کہ 'ریور بلائنڈنیس' اور 'لمفیٹک فلیریاسس' نامی بیماریاں اب تقریباً معدوم ہونے کے قریب ہیں۔
اسی سالہ ستوشی اومورا جاپان کی 'کٹساٹو یونیورسٹی' کے سابق پروفیسر ہیں جب کہ ان کے ساتھی 85 سالہ کیمپ بیل امریکی ریاست نیو جرسی کے شہر میڈیسن میں واقع 'ڈریو یونیورسٹی' کے سابق ریسرچ فیلو ہیں۔
اسی طرح ٹو یویو کی دریافت کردہ 'آرٹی میسی نین' سے تیار کی جانے والی دواؤں کا شمار ملیریا کے علاج میں استعمال ہونے والی بنیادی دواؤں میں ہوتا ہے۔
سائنس دانون کےمطابق گزشتہ 15 برسوں کے دوران دنیا میں ملیریا سے ہونے والی اموات میں 60 فی صد تک کمی آئی ہے لیکن اب بھی ہر سال پانچ لاکھ افراد اس میں مبتلا ہو کر لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔
ملیریا کے باعث موت کے منہ میں جانے والوں کی اکثریت کا تعلق افریقہ کے غریب ممالک سے ہوتا ہے اور بچے اس کا زیادہ شکار بنتے ہیں۔
چوراسی سالہ ٹو یویو 1965ء سے چین کی 'اکیڈمی آف ٹریڈیشنل چائنیز میڈیسن' سے منسلک ہیں جنہوں نے چین میں صدیوں قبل جڑی بوٹیوں سے کیے جانے والے علاج پر تحقیق یہ نئی دوا دریافت کی ہے۔
طب کے 'نوبیل' ایوارڈ کے ہمراہ 80 لاکھ سوئیڈش کراؤن (نو لاکھ 60 ہزار ڈالر) کی انعامی رقم بھی ہے جو نصف ٹو یویو جب کہ باقی نصف اوموراا ور کیمپ بیل کے حصے میں آئے گی ۔
ہر برس مختلف شعبہ جات میں دیے جانے والے یہ 'نوبیل' اعزازات سوئیڈن سے تعلق رکھنے والے متمول سائنس دان اور 'ڈائنامائیٹ' کے موجد الفریڈ نوبیل سے منسوب ہیں اور ان کا آغاز 1901ء میں کیا گیا تھا۔