نئی دہلی کے ایک اسپتال کے اہل کارون کے مطابق، بھارت میں مقیم تبت کے اسکول کا ایک بچہ، جس نے چار روز قبل تبت میں چینی حکمرانی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خودسوزی کی کوشش کی تھی، زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
سولہ برس کے دورجے سیرنگ کو جمعرات کی شام گئے اسپتال میں دل کا دورہ پڑا، جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اُنھوں نے پیر کے روز شمالی شہر، دیرہ دون میں تبتی مہاجرین کی بستی میں اپنے آپ کو آگ لگا دی تھی۔
آگ کے باعث اُن کا چہرہ جھلس چکا تھا اور اُنھیں مصنوعی تنفس پر رکھا گیا تھا۔ فوت ہونے سے پہلے اُن کی سانس اکھڑنے لگی اور وہ چل بسا۔
’وائس آف امریکہ‘ کی تبتی سروس کو موصول ہونے والی ایک وڈیو میں، جس کا ترجمہ کیا گیا ہے، سیرنگ نے اپنی شناخت مسوری میں قائم تبتی ہومز اسکول کے ایک طالب علم کے طور پر کی۔ اس کے بعد اُس کی دھڑکن بند ہوجاتی ہے۔
اِس سے پہلے، اُنھوں نے کہا کہ ’’29 فروری 2016ء کو میں نے ایک لیمپ کی طرح مٹی کا تیل مل کر اپنے جسم کو ماچس دکھائی۔ خودسوزی کی وجہ سنہ 1959میں چین کی جانب سے تبت کو فتح کرنے پر احتجاج درج کرانا تھا، کیونکہ اُنھوں نے ہم سے تبت چھین لیا تھا۔ جب میں بہت ہی چھوٹا تھا تب سے میں نے ذہن بنایا ہوا تھا کہ میں تبت کے لیے جان دوں گا۔ کل جب میں نے محسوس کیا کہ (تبت میں) حالات درست نہیں تو مجبوراً میں نے خودسوزی کا سوچا۔۔ اب یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ آگ لگنے سے کیا گزرتی ہے‘‘۔
سیرنگ نے کہا کہ ’’لوگ کہتے ہیں کہ اس نے ملک کے لیے جان دی‘‘۔ جب وہ یہ کہہ رہے تھے تو اُن کی زبان لڑکھڑا رہی تھی اور اُنھیں آکسیجن ماسک کا سہارا لینا پڑا۔
بقول اُن کے، ’’اب جب یہ بات باہر کی دنیا میں پہنچے گی تو انگلینڈ، امریکہ، افریقہ میں لوگ سوچیں گے۔ جب وہ دھیان دیں گے، تو وہ تبت کی حمایت کریں گے، اور ہم تبتیوں کو اُن کی مدد حاصل ہوگی‘‘۔
بقول اُن کے، ’’آخری بات یہ کہ یہ تبت اور ہمارے روحانی پیشوا، دلائی لامہ کی فتح ہوگی، جو لاکھوں کروڑوں سال زندہ رہیں گے‘‘۔
اسپتال کی خاتون ترجمان، پونم دھندا نے اے ایف پی کو بتایا کہ سیرنگ، جن کا انتقال مقامی وقت کے مطابق، شام کے 9 بجے ہوا، وہ چین سے باہر خودسوزی کرنے والے آٹھویں تبتی ہیں۔