واشنگٹن —
ملک بدر زندگی بسر کرنے والے تبتیوں کا کہنا ہے کہ چینی حکمرانی پر احتجاج کرتے ہوئے، مزید ایک شخص نے خود سوزی کی ہے۔
ذرائع نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ کنچوک سین نامی ایک شخص نے منگل کے دِن اپنے آپ کو نذرِ آتش کردیا۔ یہ واقعہ صوبہٴسنچوان کے مَروما قصبے میں ہوا، جِس علاقے میں 2009ء سے اب تک خودسوزی کے متعدد واقعات ہو چکے ہیں۔
یہ معلوم نہیں ہوسکا، آیا وہ زندہ ہے۔
ہامو کیاپ کا تعلق اُسی قصبے سے ہے، لیکن وہ اب بھارت میں دھرمسالا کے مقام پر رہتے ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی تبتی سروس کو بتایا کہ دو بچوں کا باپ، یہ شخص ایک مدت سے اس اقدام کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا۔
ہامو کیاپ کے بقول، کنچوک سین نے موسم گرما میں اپنے رشتہ داروں سے کہہ دیا تھا کہ تبتیوں کے ساتھ چین کی طرف سے روا رکھی جانے والی زیادتوں پر احتجاج کے طور پر، وہ خودسوزی کا ارادہ رکھتا ہے۔ اُن کے رشتہ داروں نے اُسے اپنی زندگی قربان کرنے سے منع کیا تھا۔
مقامی لوگوں کی پولیس کے ساتھ اُس وقت ایک مختصر جھڑپ ہوئی جب وہ کنچوک سین کی لاش کو لے جانے سے حکام کو روک رہے تھے۔
بعدازاں، اُن کی بیوی اور دیگر رشتہ داروں کو حراست میں لیا گیا، اور باقی دِن قصبے کا کاروبار بند رہا۔
چینی حکام نے خودسوزی کے اِس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
سنہ 2009سے اب تک 120سے زائد تبتیوں نے اپنے آپ کو نذرِ آتش کیا ہے، جو، بقول اُن کے، اپنی ثقافت کے خلاف چین کے استحصال پر آوازِ احتجاج ہے۔ چین اِن الزامات کو مسترد کرتا ہے، اور وہ خودکش احتجاج کو دہشت گردی قرار دیتا ہے۔
ذرائع نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ کنچوک سین نامی ایک شخص نے منگل کے دِن اپنے آپ کو نذرِ آتش کردیا۔ یہ واقعہ صوبہٴسنچوان کے مَروما قصبے میں ہوا، جِس علاقے میں 2009ء سے اب تک خودسوزی کے متعدد واقعات ہو چکے ہیں۔
یہ معلوم نہیں ہوسکا، آیا وہ زندہ ہے۔
ہامو کیاپ کا تعلق اُسی قصبے سے ہے، لیکن وہ اب بھارت میں دھرمسالا کے مقام پر رہتے ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی تبتی سروس کو بتایا کہ دو بچوں کا باپ، یہ شخص ایک مدت سے اس اقدام کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا۔
ہامو کیاپ کے بقول، کنچوک سین نے موسم گرما میں اپنے رشتہ داروں سے کہہ دیا تھا کہ تبتیوں کے ساتھ چین کی طرف سے روا رکھی جانے والی زیادتوں پر احتجاج کے طور پر، وہ خودسوزی کا ارادہ رکھتا ہے۔ اُن کے رشتہ داروں نے اُسے اپنی زندگی قربان کرنے سے منع کیا تھا۔
مقامی لوگوں کی پولیس کے ساتھ اُس وقت ایک مختصر جھڑپ ہوئی جب وہ کنچوک سین کی لاش کو لے جانے سے حکام کو روک رہے تھے۔
بعدازاں، اُن کی بیوی اور دیگر رشتہ داروں کو حراست میں لیا گیا، اور باقی دِن قصبے کا کاروبار بند رہا۔
چینی حکام نے خودسوزی کے اِس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
سنہ 2009سے اب تک 120سے زائد تبتیوں نے اپنے آپ کو نذرِ آتش کیا ہے، جو، بقول اُن کے، اپنی ثقافت کے خلاف چین کے استحصال پر آوازِ احتجاج ہے۔ چین اِن الزامات کو مسترد کرتا ہے، اور وہ خودکش احتجاج کو دہشت گردی قرار دیتا ہے۔