امریکی قانون سازوں نے جمعرات کو ٹک ٹاک کے سی ای او سے ان کی ان یقین دہانیوں کی سماعت کے دوران کہ ان کی مقبول ویڈیو شئیرنگ ایپ صارفین کی سیفٹی کو مقدم رکھتی ہے اور اسے بین نہیں کیا جانا چاہئے ، ان سے ڈیٹا کی سیکیورٹی اور نقصان دہ مواد کے بارے میں سخت سوالات کیے ۔
شو زی چیو کمپنی کو درپیش ایک اہم وقت میں گواہی کے لیے پیش ہوئے ، جس کے پاس امریکہ کے 150 ملین صارفین ہیں لیکن جسے امریکی حکام کے بڑھتے ہوئے دباو کا سامنا ہے ۔ ٹک ٹاک اور اس کی اصل کمپنی بائٹ ڈانس تجارت اور ٹیکنالوجی پر بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان جاری ایک زیادہ بڑی جیو پولیٹیکل جنگ کی لپیٹ میں آچکی ہے ۔
ایک بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی طاقت کو لگام دینے کی ایک شاذ و نادر ہونے والی دو جماعتی کوشش میں ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک قانون سازوں نے چی سے متعدد موضوعات پر سخت سوالات کیے جن میں ٹک ٹاک کے مواد کے کنٹرول کے طریقوں سے لے کر یہ موضوعات تک شامل تھے کہ کمپنی امریکی ڈیٹا کو بیجنگ سے محفوظ رکھنے اور صحافیوں کی جاسوسی کے خاتمے کے لیے کیا منصوبے رکھتی ہے ۔
اپنے افتتاحی بیان میں کمیٹی کی چیئر پرسن اور ایک ری پبلکن کیتھی میک مورس راجرز نے کہا کہ مسٹر چیو آپ یہاں اس لیے ہیں کہ امریکی عوام کو ٹک ٹاک سے ہماری ملکی اور ذاتی سیکیورٹی کو لاحق خطرے کے بارے میں سچ جاننے کی ضرورت ہے ۔ ٹک ٹاک نے بار بار زیادہ کنٹرول اور زیادہ نگرانی کے لیےایک راستہ چنا ہے
سنگا پور کے رہائشی چالیس سالہ چیو نے توانائی اور تجارت کی ایوان کی کمیٹی کو بتایا کہ ٹک ٹاک اپنے نوجوان صارفین کی حفاظت کو ترجیح دیتا ہے اور انہوں نے ان الزامات سے انکار کیا کہ وہ قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے ۔ انہوں نے امریکی صارفین کے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے سے متعلق کمپنی کے اس منصوبے کو دہرایا کہ وہ ایسی تمام معلومات کو سافٹ وئیر کی بڑی کمپنی اوریکل کی زیر ملکیت اور زیر انتظا م سرورز پر اسٹور کر کے انہیں محفوظ رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔
چیو نے کہا مجھے دو ٹوک انداز میں یہ کہنے دیجئے کہ بائٹ ڈانس چین یا کسی دوسرے ملک کی ایجنٹ نہیں ہے ۔
بدھ کے روز کمپنی نے درجنوں مقبول ٹک ٹاکرز کو کیپیٹل ہل بھیجا تاکہ وہ پلیٹ فارم کو محفوظ رکھنے کے لیے قانون سازوں سے لابنگ کریں۔ وہ پورے واشنگٹن میں ایسے اشتہارات لگاتی رہی ہے جن میں صارفین ، ڈیٹا اور پرائیویسی کو محفوظ رکھنے اور اپنے نوجوان صارفین کےلیے ایک محفوظ پلیٹ فارم تشکیل دینے کے وعدے کیے گئے ہیں ۔
تک ٹاک پر یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ اس کی چینی ملکیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے صارفین کا ڈیٹا آخر کار چینی حکومت کے ہاتھوں تک جا سکتا ہے ۔
ایک ایپ پر امریکی پابندی کا یہ غیر معمولی واقعہ ہو گا ، فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت اسے کس طرح نافذ کرے گی ۔
ماہرین کہتے ہیں کہ حکام ایپل اور گوگل کو اپنے ایپ اسٹوروں سے ہٹانے پر مجبور کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔ فوجداری قانون اور کمپیوٹر سیکیورٹی کے ایک ماہر اور بوسٹن یونیورسٹی میں قانون کے ایک استاد احمد غفور کہتے ہیں کہ امریکہ ٹک ٹاک کے انفرااسٹرکچر اور ڈیٹا تک رسائی بلاک کر سکتا ہے ،اس کا ڈومین نام چھین سکتا ہے یا انٹر نیٹ سروس فراہم کرنے والوں مثلاً کام سیٹ اور ورائزن کو ٹک ٹاک کو فلٹر کرنے پر مجبور کر سکتا ہے ۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ ٹیک کا ایک ماہر ان پابندیوں سے بچنے کےلیے کوئی ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک استعمال کر سکتا ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ صارف کسی ایسے ملک میں بیٹھا ہے جہاں وہ بین نہیں ہے ۔
یورپی یونین کے ساتھ ساتھ ڈنمارک ، کینیڈا ، برطانیہ اور نیوزی لینڈ سمیت دوسرے ملک سرکاری ملازمین کے لیے ٹک ٹاک کو اپنی ڈیوائسز پر انسٹال کرنے پر پہلے ہی پابندی لگا چکے ہیں ۔
ڈیوڈ کینیڈی ، جو سرکاری انٹیلی جنس کے ایک سابق افسر ہیں اور سائبر سیکیورٹی کی کمپنی ٹرسٹ ایڈسیک چلاتے ہیں سرکاری ٖ فونز پر ٹک ٹاک کی رسائی پر پابندی سے اتفاق کرتے ہیں کیوں کہ ان میں حساس معلومات ہو سکتی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ ملک گیر سطح پر پابندی ایک انتہائی قدم ہو سکتا ہے ۔کینیڈی نے کہا کہ چین میں ٹیسلا ہے ، مائیکروسافٹ ہے ، ایپل ہے ، کیا وہ اب ہم پر پابندی لگانا شروع کر دیں گے ۔ یہ سلسلہ بہت تیزی سے پھیل سکتا ہے ۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)