امریکہ کےو زیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے معاملات پر دنیا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ فوری مذاکرات کا کوئی امکان نہیں۔
پیر کو فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ریکس ٹلرسن نے کہا کہ امریکہ پیانگ یانگ کی کمیونسٹ حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر صرف اسی صورت میں غور کرے گا جب وہ بیلسٹک میزائلوں کے تجربات مکمل طور پر بند کردے۔
شمالی کوریا پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ اس کا میزائل تجربات روکنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کی نمائندہ تنظیم 'آسیان' کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے منیلا میں ہیں جس میں خطے میں سکیورٹی کی صورتِ حال اور خدشات پر بات چیت کی جارہی ہے۔
'آسیان ریجنل فورم' کے عنوان سے ہونے والے اجلاس میں 26 ممالک کے وزرائے خارجہ اور یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے شریک ہیں۔
منیلا میں جاری اجلاس کے موقع پر اتوار کو شمالی و جنوبی کوریا کے وزرائے خارجہ کے درمیان مختصر بات چیت ہوئی تھی جس میں اطلاعات کے مطابق شمالی کوریا کے وزیرِ خارجہ ری یانگ ہو نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ ان کا ملک اپنے موقف میں تبدیلی پر آمادہ ہے۔
شمالی کوریا کے حالیہ بیلسٹک میزائل تجربات کے ردِ عمل میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہفتے کو امریکہ کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی تھی جس میں شمالی کوریا پر نئی اور مزید سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
امریکی سفارت کاروں کے مطابق نئی پابندیوں کے نتیجے میں شمالی کوریا کو سالانہ ایک ارب ڈالر کا اضافی مالی خسارہ اور نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
اتوار کی شب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور جنوبی کوریا کے صدر مون جائے ان نے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران شمالی کوریا کے میزائل تجربات کو براہِ راست اور سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے نئی پابندیوں کی حمایت کی تھی۔
گفتگو کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں پابندیوں کی قرارداد کی متفقہ منظور پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے قرارداد کی حمایت کرنے پر روس اور چین کا شکریہ ادا کیا تھا۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے اتوار کو منیلا میں اپنے چینی ہم منصب وانگ یی اور روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف سے بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں جس میں انہوں نے شمالی کوریا کےخلاف مشترکہ موقف اپنانے پر زور دیا تھا۔