خلائی ساحل کہلانے والی ریاست فلوریڈا کے تین مشہور زمانہ مکین جلد ہی ریٹائر ہونے والے ہیں۔ آپ جانتے ہیں یہ کون سے شہری ہیں۔ یہ تینوں وہ خلائی شٹل ہیں جنہوں نے تقریباً تیس سال کے عرصے تک متعدد بار خلا کی سیر کی اور دنیا کو خلا اور اس میں موجود سیاروں اور ستاروں کے بارے میں سائنسی معلومات فراہم کیں۔ یعنی یہ خلائی شٹل ۔۔اینڈیور، ڈِسکوری، اور اٹلانٹس ہیں۔
ریاست فلوریڈا کا یہ ٹایٹسوِل نامی شہر اپنے اندر ایک چھوٹے سے امریکی شہر کا احساس لئے ہوئے ہے جہاں گرمیوں میں خوب رونقیں ہوتی ہیں۔ اور عشروں سے اس کے آسمان پر بہت سے دوسرے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اورشہر ٹایٹسوِل اِسی خلائی ساحل کہلانے والی ریاست فلوریڈا کا حصہ ہے۔ اور یہ امریکی خلائی ادارے ناسا کے کینیڈی اسپیس سینٹر کے بلکل سامنے، دریائے انڈین لگون کے کنارے پر واقع ہے۔
ٹایٹسوِل کےمنتظم مارک ریان کا کہنا ہے کہ ٹایٹسوِل خلائی پرگرام کی جائے پیدائش ہے۔ خلائی پرگرام کے آغاز ہی سے یہاں سے مشرق کی جانب تقریباً نو میل دور کینیڈی اسپیس سینٹر سے راکٹ خلا کے سفر پر روانہ ہوتے رہے ہیں۔ اس لئے ٹایٹسوِل اور خلائی پرگرا م ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔
ریان کا کہنا ہے کہ اسی مزاج کا عکس پینتالیس ہزار نفوس پر مشتمل اس شہر میں جھلکتا ہے۔ اگر آپ کہیں کہ یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں کسی ایک کمپنی کے ملازمین رہتے ہیں تو ہاں یہ کمپنی کا ہی شہر ہے۔ بے شمار لوگ خلائی پروگرام کے ساتھ ساتھ پروان چڑھے۔ اِنکے والدین یا پھر اُنکے والدین یا خاندان کے دیگر افراد اسی جگہ کام کرتے تھے۔
اب تیس سال سے جاری ناسا کی یہ خلائی شٹل ریٹائر ہو رہی ہیں تو بہت سے مقامی افراد اس صورتحال سے پریشان ہیں۔
اس ساری آبادی کا دارومدار ہی خلائی پرگرام پر ہے۔ مقامی شہری مائیک بارکر جو یہاں منعقد ہونے والے مختلف میلوں میں لوگوں کو خلائی چہل قدمی کر کے دکھاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میں ایسے بہت سے افراد کو جانتا ہوں جوا سپیس سینٹر پر کام کرتے ہیں۔ اگر اسپیس سینٹر نہیں ہو گا تو بہت سی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔
تاہم شٹل پرگرام کے اختتام سے اسپیس سینٹر ختم نہیں ہو گا۔ ریان کا کہنا ہے کہ کینیڈی اسپیس سینٹر تو بند نہیں ہو رہا۔ اب یہ ایک نئی سمت کی جانب رواں ہے کہ خلا کی تسخیر کے لئے امریکہ کیا لائحہ عمل اختیار کرے گا ۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ہمارا انحصار کاروباری سطح پر یعنی نجی خلائی سفر پر ہوگا۔
اسپیس شٹل پرگرام پر اب تک ایک سو تیرہ ارب ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں۔ اور خلائی شٹل کے رہتے ہوئےناسا نئی طیارہ ساز خلائی ٹیکنالوجی نہیں بنا سکتا۔ ناسا کی توجہ اب جدید ٹیکنالوجی کے حامل خلائی طیارے بنانے پر مرکوز ہے۔
ناسا کے لگ بھگ ایک ہزار ملازمین شٹل پرگرام سے ہٹ کر دوسرے شعبوں میں کام شروع کر دیں گے۔ تاہم ہزاروں اپنی ملازمتیں کھو بیٹھیں گے۔
گزشتہ پینتالیس سال سے یہاں زمین کے لین دین کا کام کرنے والے بوب کرک کہتے ہیں کہ آئندہ چار سے پانچ سال کا عرصہ مشکلات لئے ہوئے ہے۔ اس لئے بہت سے لوگ یہاں نہیں رہیں گے۔ بہت سے گھر پہلے ہی خالی ہوچکے ہیں اور بہت سے آئندہ چند ہفتوں میں خالی ہو جائیں گے۔ میں اُس وقت بھی یہیں تھا جب سن انیس سو بہتر میں سب کو برطرف کر دیا گیا تھا۔ ایسا ہی دوبارہ سن انیس سو چھیاسی میں ہوا تھا۔
سن انیس سو بہتر میں چاند پر جانے والے راکٹ اپالو کو ریٹائر کر دیا گیا۔ نو سال بعد مسافر بردار نیا خلائی جہاز روانگی کے لئے تیار تھا۔ جب سن انیس سو چھیاسی میں شٹل چیلنجر گر کر تباہ ہو گئی تو پھر شٹل پرگرام کو تین برس کے لئے روک لیا گیا تھا۔
اور اب خلائی شٹل اٹلانٹس کی واپسی کے ساتھ ہی خلائی شٹل کا دور اپنے اختتام کو پہنچے گا۔