امریکی فوج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے رواں ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے نمائندوں اور افغانستان کے دارالحکومت کابل میں افغان صدر اشرف غنی سےملاقاتیں کی ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں تشدد میں کمی کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق امریکی فوج کے جنرل مارک ملی نے طالبان کے نمائندوں سے منگل کو لگ بھگ دو گھنٹوں تک ملاقات کی اور بعد ازاں کابل میں افغان صدر اشرف غنی سے ہونے والی ملاقات میں افغان امن عمل پر تبادلۂ خیال کیا۔
قطر اور افغانستان کے دورے کے دوران ان کے ساتھ سفر کرنے والے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل ملی کا کہنا تھا کہ طالبان اور افغانستان کی حکومت کے ساتھ ان کی بات چیت کے دوران سب سے اہم معاملہ افغانستان میں فوری جنگ بندی کا تھا۔ ان کے بقول باقی دیگر معاملات کا انحصار اسی بات پر ہے۔
یاد رہے کہ یہ جنرل ملی کی طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ دوسری غیر اعلانیہ ملاقات تھی۔ اس سے قبل رواں سال جون میں بھی انہوں نے طالبان سے ملاقات کی تھی۔ تاہم یہ ملاقات عام نہیں کی گئی تھی۔
جنرل مارک ملی نے بدھ کو کابل میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی جس میں افغان امن عمل پر تبادلۂ خیال ہوا۔ فریقین نے افغانستان میں تشدد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جنگ بندی کی فوری ضرورت ہے۔
افغان صدارتی محل کے ایک بیان کے مطابق اس موقع پر امریکی افواج کے سربراہ جنرل ملی نے صدر اشرف غنی کو یقین دہانی کرائی کہ امریکہ افغان ڈیفنس اور سیکیورٹی فورسز کی حمایت جاری رکھے گا۔
امریکہ کے اعلیٰ فوجی جنرل نے دوحہ اور کابل کا دورہ ایک ایسے وقت کیا ہے جب امریکی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ رواں سال 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت اگلے سال 15 جنوری تک افغانستان میں تعینات امریکی فورسز کی تعداد گھٹا کر 2500 تک کر دی جائے گی۔
دوسری طرف بین الاقوامی برادری اور امریکی حکام افغانستان میں بڑھتے تشدد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ تشدد جاری رہنا افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے۔
یاد رہے کہ طالبان کی طرف سے جنرل ملی سے ملاقات کے بارے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی ہے جب ایک طرف قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کی مذاکراتی ٹیموں نے بین الافغان مذاکرات کا ایجنڈا طے کرنے کے لیے قوائد و ضوابط وضع کرنے کے بعد تین ہفتے کے وقفے کا اعلان کیا۔ دونوں فریقین کے درمیان بات چیت کا اگلا دور پانچ جنوری سے شروع ہو گا۔
افغانستان میں اقوامِ متحدہ کی نمائندہ خصوصی ڈیبرا لیونز نے جمعرات کو سلامتی کونسل کو افغانستان کی صورت حال کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ تشدد میں شدت امن عمل اور خطے کے لیے خطرہ ہے۔
ڈیبرا نے تمام ممالک سے کہا کہ وہ افغانستان میں تشدد میں پائیدار کمی کے لیے تمام فریقین پر اپنا دباؤ برقرار رکھیں۔ ان کےبقول وہ یہ توقع رکھتی ہیں کہ جب بین الافغان مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے تو تشدد کا معاملہ اولین ترجیح ہوگا۔
حال ہی میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں 'ریزولیوٹ سپورٹ مشن' کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کیا تھا اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے افغان امن عمل پر تبادلۂ کیا گیا تھا۔ دوسری طرف افغان طالبان کا ایک وفد بھی پاکستان کے دورے پر ہے۔
اس تمام صورتِ حال پر بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ افغان امن عمل کو ٹریک پر رکھنے کے لیے سفارتی اور دیگر ذرائع سے رابطے جاری رہنے چاہئیں۔ ان کے بقول اگر دیکھا جائے کہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو گیا اور ساتھ ہی اسلام آباد، کابل اور واشنگٹن کے درمیان رابطے بھی ہو گئے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب سب کچھ اچھا ہو گیا۔
ان کے بقول امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کھلے عام اور بیک ڈور چینل سے ہر طرح کے رابطے برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ افغان امن عمل میں پیش رفت ہوتی رہے۔
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تشدد کی کارروائیاں اس وقت امن عمل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ لیکن طالبان ابھی تک تشدد کم کرنے کے لیے جنگ بندی قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
ہما بقائی کے بقول اس وقت دوحہ، اسلام آباد اور کابل کے درمیان سفارتی اور عسکری رابطے بھی اس لیے زیادہ ہو رہے ہیں کیوں کہ افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی لیے رابطوں کا تسلسل برقرار رکھنا ہو گا تاکہ افغان امن عمل میں کوئی تعطل پیدا نہ ہو۔