رسائی کے لنکس

طورخم کراسنگ کو 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا خیرمقدم


طورخم کراسنگ پر تجارتی ٹرکوں اور گاڑیوں کے رش کا ایک منظر (فائل فوٹو)
طورخم کراسنگ پر تجارتی ٹرکوں اور گاڑیوں کے رش کا ایک منظر (فائل فوٹو)

خیبر پختونخوا کے تجارتی اور کاروباری حلقوں نے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات کے تحت یکم اگست سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم سرحدی گزرگاہ طورخم کو شب و روز کھلا رکھنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ مگر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف سرحد کو کھولنے سے دوطرفہ تجارت کو فروغ نہیں ملے گا، جب تک وہاں عام لوگوں، تاجروں اور ٹرانسپوٹروں کے لیے آسانیاں اور دیگر سہولیات فراہم نہیں کر دی جاتیں۔

وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات پر طورخم کی سرحدی گزرگاہ کا یکم اگست سے 24 گھنٹے کھلا رکھنے کے انتظامات شروع کر دیے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں کراسنگ پر کام کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور مال بردار گاڑیوں کی آمد و رفت اور کلئیرنس میں آسانی کے لیے سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔

ضلع خیبر میں ٹرانسپورٹروں کی تنظیم کے صدر شاکر آفریدی نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ طورخم کراسنگ پر ماضی کی نسبت ٹراسپورٹروں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔

ماضی قریب میں 200 سے 250 روپے کی رشوت کی بجائے اب فی ٹرک 16000 روپے تک وصول کیے جاتے ہیں۔

اہل کاروں اور دیگر سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث مال بردار ٹرک عموماً 15 دنوں سے لے کر ایک مہینے تک اپنی باری کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ کسٹم امیگریشن اور دیگر سرکاری اداروں کے اہل کاروں کی تعداد اور سہولیات میں اضافہ کرے۔

خیبر پختونخوا کے صنعت و فرحت کے سابق صدر زاہد اللہ شینواری نے بھی شاکر آفریدی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت کو تب ہی فروع ملے گا جب آمد و رفت پر عائد پابندیاں اٹھائی جائیں گی۔

اُنہوں نے طورخم کی سرحدی گزرگاہ کو دن رات کھولنے کے فیصلے کی تعریف کی اور اسے دونوں ہمسایہ ممالک کے لیے مفید قرار دیا۔

زاہد اللہ شینواری نے کہا کہ افغان ٹرانزٹ کے معاہدے کی معیاد ختم ہو چکی ہے۔ لہذٰا، دونوں ممالک کو اس معاہدے میں توسیع کرنی چاہیئے، جب کہ پاکستان کو سارک کانفرنس کے فیصلوں کے مطابق دیگر ہمسایہ ممالک کی طرح افغانستان کے ساتھ محصولات میں کمی کرنی چاہیئے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کو فروع دینے سے معاشی مسائل بالخصوص بے روزگاری اور غربت میں کمی آ سکتی ہے۔

سرحدی قصبے لنڈی کوتل میں صحافیوں کی تنظیم کے عہدیدار انور آفریدی نے حکومت کے اس اقدام کو سراہا ہے، مگر ان کا کہنا ہے کہ اس چیز کی بھی اشد ضرورت ہے کہ سرحدی گزگاہ پر تعینات اہل کار وہاں سے گزرنے والوں کے ساتھ اپنا رویہ درست کریں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ شکایات عام ہیں کہ وہاں تعینات اہل کار لوگوں کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کی صنعت و حرفت کی مشترکہ تنظیم کے نائب صدر ضیا الحق سرحدی نے کہا کہ سرحدی گزرگاہ کو دن رات کھلا رکھنے سے دوطرفہ تجارت میں نہ صرف اضافہ ہو گا بلکہ افغانستان اور افغانستان کے راستے پاکستان کی برآمدات بڑھنے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ چند سال قبل دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا سالانہ حجم ڈھائی ارب امریکی ڈالر تھا جو اب بہت گھٹ چکا ہے۔ ان کے بقول، اگر سیاسی اور انتظامی تنازعات کو حل کر دیا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم پانچ ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔

پشاور میں حکام نے بتایا کہ وزیر اعظم کے فیصلے پر عمل در آمد کے لیے وزیر اعلیٰ نے مارچ میں لنڈی کوتل میں کابینہ اجلاس میں حکام کو سرحدی گزرگاہ سے متعلق اقدامات کی ہدایات جاری کی تھیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور آمد و رفت کو سہل بنانے کے لیے اقدامات اب اپنے آخری مراحل میں ہیں۔

توقع کی جا رہی ہے کہ عمران خان اور افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اگست کے پہلے ہفتے میں ایک مشترکہ تقریب میں طورخم کراسنگ کو دن رات کھولنے کا افتتاح کریں گے۔

XS
SM
MD
LG