ٹائٹینک کی باقیات کو دکھانے کے لیے ارب پتی مہم جوؤں کو بحراوقیانوس کی تہہ میں لے جانے والی چھوٹی آب دوز ٹائیٹن کے دھماکے سے پھٹنے اور اس میں موجود پانچ افراد کی ہلاکت نے نئے سوالات کو جنم دیا ہے جن کا تعلق ٹائیٹن کے حفاظتی انتظامات اور معاوضے کے لیے امکانی مقدمات سے ہے۔
18 جون کو جب آب دوز بدقسمت مسافروں کو لے کر اپنے آخری سفر پر روانہ ہوئی تو اس کی خبر بہت کم لوگوں تک پہنچی ۔ ٹائیٹن کا زمین سے رابطہ پونے دو گھنٹے کے بعد ہی ٹوٹ گیا تھا لیکن اس کی گمشدگی کی اطلاع لوگوں کو ایک روز کے بعد ملی۔اس بارے میں بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ آب دوز کے غائب ہونے کی خبر کو آٹھ گھنٹوں سے زیادہ عرصے تک کیوں چھپایا گیا۔
آب دوز میں مسافروں کے لیے تقریباً 96 گھنٹوں تک کے لیے آکسیجن موجود تھی۔ جب تک اعصاب شکن 96 واں گھنٹہ تمام نہیں ہوا ، سمندر کی لگ بھگ 4000 ہزار میٹر گہرائی میں ٹائیٹن کی تلاش جاری رہی جس میں تین ملکوں کے ماہرین نے زیر آب کھوج لگانے والے طیاروں، بحری جہازوں، ڈورنز اور جدید ترین آلات کو استعمال کیا۔ اور اس دوران آب دوز گم ہونے کے مقام اور آس پاس کا 10 ہزار کلومیٹر سے زیادہ سمندر کو چھانا گیا۔ پانچویں روز جب کہ آکسیجن کا ذخیرہ ختم ہونے میں چند ہی گھنٹے باقی رہ گئے تھے ، تو نگرانی کے آلات نے سمندر کی تہہ میں دھماکے اور شور سے ملتی جلتی آوازوں کو ریکارڈ کیا ، اور زیر آب ڈرون نے ٹائٹینک کی باقیات سے کچھ فاصلے پر ملبے جیسی کسی چیز کی نشاندہی کی، جس سے ٹوٹتی ہوئی امید بندھی اور تلاش کے کام میں زیاہ تیزی آ گئی۔
96 واں گھنٹہ ختم ہونے پر جہاں مہم جوؤں کے زندہ بچنے کی امیدیں ختم ہوئیں وہاں کچھ حیران کن خبریں بھی سامنے آئیں کہ آوازوں کا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ زیادہ امکان یہ ہے کہ ان کا تعلق غائب ہو جانے والی آب دوز سے نہیں ہے اور اس بارے میں بھی شبہات ہیں کہ آلات کی پکڑ میں آنے والے ملبے کا تعلق ٹائیٹن سے نہ ہو۔
پھر ٹائیٹن کہاں گیا؟ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ غالب امکان یہ ہے کہ ٹائیٹن اتوار کے روز ہی اپنے سفر کے ابتدائی گھنٹوں میں پھٹ کر تباہ ہو گیا تھا اور اس میں موجود پانچوں افراد آناً فاناً ہلاک ہو گئے تھے۔
اب ٹائیٹن رہا ہے اور نہ ہی ڈھائی لاکھ ڈالر فی کس میں ٹکٹ لے کر ٹائٹینک کی باقیات کو دیکھنے کے لیے جانے والے مہم جو ۔ جو باقی بچا ہے وہ سوالات ہیں جو آنے والے برسوں میں مہم جوئی کے لیے ضابطوں اور قوانین کی راہ ہموار کریں گے۔
نارتھ کیرولائنا کی کیمبل یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر سالوٹورمرکو گلیارنو کہتے ہیں کہ گہرے پانیوں میں مہم جوئی کے حوالے سے ہمیں اسی صورت حال کا سامنا ہے جو 20 صدی کے آغاز پر ہمیں ہوابازی کے سلسلے میں تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ہوا بازی کا ابتدائی زمانہ تھا۔ اس دور میں ہونے والے حادثات نے قانون اور ضابطوں کی راہ ہموار کی تھی۔
مرکوگلیانو ہوابازی اور سمندر کی گہرائیوں کی مہمات کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہوا اور خلا میں انسان بھیجنے والی کمپنیوں کی بہت جانچ پرکھ ہوتی ہے اور انہیں بہت سے ضوابط پر عمل کرنا پڑتا ہے جب کہ سمندروں کی مہمات کے لیے ابھی کچھ ایسا بندوبست نہیں ہے۔
کچھ ماہرین نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ یہ امکان موجود ہے کہ اس حادثے کے بعد ٹائیٹن کی کمپنی پر غیرمعیاری حفاظتی انتظامات، غفلت اور ہلاکتوں کے مقدمات دائر کئےجائیں مگر یہ مقدمات جیتنے کی راہ میں کئی چیلنجز حائل ہیں۔ جس کی پہلی وجہ وہ اقرار نامہ ہے جس پر ٹائیٹن کے مسافروں نے موت کے سفر پر جانے سے پہلے دستخط کیے تھے۔ اس دستاویز میں وہ یہ اقرار کرتے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ ٹائیٹن میں بعض صورتوں میں انہیں موت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ٹیلی وژن شو ’دی سپمسنز ‘ کے مصنف مائیک ریس ایک زیر آب مہم میں ٹائیٹن پر سفر کر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سفر سے قبل ان سے جس دستاویز پر دستخط کرائے گئےتھے اس میں درج تھا کہ مجھے گیسوں کے شدید دباؤ، آکسیجن کے مسائل، ہائی وولٹ کی بیٹریوں کے سسٹم سے منسلک خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے جس کا نتیجہ زخمی ہونے، معذور ہونے یا ہلاکت کی صورت میں نکل سکتا ہے۔زخمی ہونے پر مجھے فوری طور پر طبی امداد بھی نہیں مل سکتی۔
واشنگٹن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر تھامس شوئن بام ، جو سمندری قوانین سے متعلق ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں ، کہتے ہیں کہ اگر اقرار نامے کی عبارت اچھی ہو اور کسی وکیل نے تحریر کی ہو تو عدالت میں نقصان کا معاوضہ حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
شوئن بام کا مزید کہنا تھا کہ 1993 میں بحری مسافروں کے تحفظ کیے لیے ایک قانون بنا تھا جس کا ٹائیٹن پر بھی اثر ہو سکتا ہے ۔ مگر دیکھنا یہ ہو گا کہ اوشن گیٹ کمپنی کی آبدوز ٹائیٹن کس کی ملکیت میں ہے۔ اوشن گیٹ کمپنی کے سی ای او ، رش نے، جو ٹائیٹن کے حادثے میں ہلاک ہونے والے پانچ افراد میں شامل ہیں، 2021 میں ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اوشن گیٹ ایک امریکی کمپنی ہے لیکن ٹائیٹن کو مہاباس میں رکھا گیاہے۔
شوئن بام کے خیال میں اس لحاظ سے یہ دو ملکوں کا معاملہ ہے جس میں چیلنجز پیش آسکتے ہیں۔
آب دوز کے حادثے کے بعد اب یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ آیا اس کی انشورنس کرائی گئی تھی۔اور کیا معاہدے میں یہ وضاحت موجود ہے کہ یہ کس قانون کے تحت اور کہاں دائر کیا جائے گا۔
یونیورسٹی آف ورجینیا میں قانون کے پروفیسر جارج روتھر گلن کہتے ہیں کہ ٹائیٹن کے حادثے میں جانی نقصان کے علاوہ اس کی تلاش پر بھی کوسٹ گارڈ نے لاکھوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکی حکومت سخت ضابطوں کے ساتھ سامنے آ سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی جہاز رانی کی تنظیم میری ٹائم آرگنائزیشن بھی کوئی کارروائی کر سکتی ہے اور کانگریس بھی قانون سازی کر سکتی ہے۔ اور اس طرح کی خطرناک مہمات کو روکنے کے لیے دنیا کی اقوام انہیں اپنی بندرگاہوں تک رسائی اور سہولتوں کی فراہمی پر پابندی لگا سکتی ہیں۔
انسانی جان کی بہت اہمیت ہے ۔ اسے غیر محفوظ مہمات کے لیے کوئی بھی داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
( اس آرٹیکل کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)