حکومتِ پاکستان نے سرحد پار افغانستان میں روپوش کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کرتےہوئے واضح کیا ہے کہ اسلام آباد ایسے افراد سے بات چیت نہیں کرے گا جو پاکستانی شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان اور نائب وزیرِ اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ افغان حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے قبائلی علاقوں کے عمائدین اور رہنماؤں پر مشتمل ایک وفد نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔
عمائدین کے وفد میں شامل ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کالعدم تنظٖیم کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے مصالحت کے لیے ٹی ٹی پی کی شوریٰ کو اعتماد میں لینے کا کہا ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ چند ماہ کے دوران پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا بالخصوص افغانستان سے متصل علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
مئی کے اوائل میں چین، افغانستان اور پاکستان کے مابین ہونے والی ملاقات کے بعد ایک مرتبہ پھر کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مصالحت اور بات چیت پر زور دیا گیا تھا۔
ٹی ٹی پی، دیگر عسکریت پسند گروہوں اور حکومتِ پاکستان کے درمیان مصالحت کے لیے قبائلی رہنماؤں پر مشتمل ایک روایتی جرگے نے کوششیں شروع کی ہیں۔
اس سلسلے میں ایک وفد نے چند روز قبل افغانستان کے صوبے خوست میں کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے بات چیت کی ہے۔
جرگے میں شامل شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی مذہبی شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے ساتھی جمعے کو اسلام آباد میں اعلیٰ سول، سیاسی اور سیکیورٹی حکام سے تبادلۂ خیال کریں گے۔ البتہ انہوں نے وزارتِ خارجہ کے بیان پر تبصرہ کرنے سےگریز کیا۔
کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے بھی وزارتِ خارجہ کے بیان پر ابھی تک کسی قسم کا ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
مذہبی شخصیت کا کہنا تھا کہ اب حالات کافی تبدیل ہو گئے ہیں۔ طالبان، حکومت کے ساتھ مفاہمت کے خواہاں ہیں مگر وہ عزتِ نفس بھی چاہتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا کالعدم تنظیم کے سربراہ اور ان کے ساتھی حکومتِ پاکستان کے اسلحہ پھینکنے اور خود کو قانون کے حوالے کرنے کے مطالبے کو مان لیں گے؟ قبائلی رہنما کا کہنا تھا کہ بات چیت باضابطہ شروع ہونے سے قبل دونوں فریق مختلف شرائط پیش کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بحث و مباحثے کے دوران بہت سی شرائط واپس لی جاتی ہیں یا ان میں نرمی لائی جاتی ہے۔ ان کے بقول مصالحت تب ممکن ہوجاتی ہے جب مذاکرات باضابطہ شروع ہوجاتے ہیں۔
افغانستان کے سینئر صحافی سید رحمان رحمانی بتاتے ہیں کہ کالعدم تنظیم کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کے ساتھ قبائلی رہنماؤں کی ملاقات خوست میں ہوئی ہے اور مفتی نور ولی نے طالبان شوریٰ کو اعتماد میں لینے کے بعد جرگے کو مؤقف دینے کا یقین دلایا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات میں افغانستان میں طالبان حکومت کے عبوری وزیرِداخلہ سراج الدین حقانی تو نہیں تھے مگر یہ ملاقات اور بات چیت حقانی نیٹ ورک کی وساطت سے ہی ممکن ہوئی ہے۔
طالبان حکومت کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانع نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں کالعدم ٹی ٹی پی کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں پاکستانی طالبان اور داعش موجود نہیں ہے۔
اس بیان پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے ردِعمل دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ اگر افغانستان میں پاکستانی شدت پسند نہیں ہیں تو پھر افغانستان کس طرح مصالحت کی بات کرتا ہے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی رسول داوڑ نے بھی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مصالحت کے لیے کوششیں دوبارہ شروع ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں بالخصوص شمالی اور جنوبی وزیرستان کے دہشت گردی سے متاثرہ تمام لوگ مصالحت اور مفاہمت کے حق میں ہیں۔
ان کے بقول یہ لوگ آئے روز دہشت گردی اور تشدد کے واقعات سے تنگ آ چکے ہیں اور اب یہ امن چاہتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی کوششیں ہوئی تھیں اور اس دوران جنگ بندی کا بھی اعلان کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں ٹی ٹی پی نے شرائط کی پاسداری نہ کرنے پر جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کرکے پرتشدد کارروائیاں تیز کردی تھیں۔