بلوچستان کی تاجر برادری نے پاکستانی حکومت کی طرف سے پاک ایران تجارت کے فروغ کے لیے مال گاڑیاں اور مسافر ٹرین چلانے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
بلوچستان چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر محمد ایوب کا کہنا ہے کہ طویل بدامنی اور خشک سالی کے باعث بلوچستان میں بے روزگاری میں کافی اضافہ ہوا ہے جس کے سبب اب صوبے کے لوگوں کا گزر بسر ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارت اور صوبے کے مختلف شہروں میں دستیاب روزگار کے چھوٹے چھوٹے ذرائع پر ہے۔
ایسے حالات میں ان کے بقول وفاقی حکومت کو دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں توازن پیدا کرنے کے لیے بھی بعض ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد ایوب نے کہا کہ دونوں حکومتوں کا کہنا ہے کہ وہ باہمی تجارت کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھانا چاہتی ہیں جس کے لیے ضروری ہے کہ کسٹم اور وزارتِ خزانہ کے حکام بلوچستان کے لیے محصولات اور ڈیوٹیز میں کمی کریں۔
محمد ایوب کا کہنا تھا کہ کیونکہ بلوچستان کے تاجر سمندر کے راستے کی جانے والی تجارت کا مقابلہ نہیں کرسکتے لہذا زمینی راستے سے ہونے والی تجارت کو آسان بنایا جانا چاہیے۔
انہوں نے تجویز دی کہ دونوں ہمسایہ ممالک اپنی کرنسی میں تجارت کو ترجیح دیں تو اس سے قانونی تجارت میں اضافہ ہوگا۔
پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کا توازن اس وقت ایران کے حق میں ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ ایران سے 117 اشیا پاکستان درآمد کی جاتی ہیں جب کہ پاکستان سے قانونی طور پر چاول، کینو، اسپورٹس کا سامان اور تل ایران برآمد کیا جاتا ہے۔
ایران سے غیر قانونی راستوں سے اربوں روپے کی پیٹرولیم مصنوعات بھی پاکستان آتی ہیں۔
گزشتہ ماہ پاکستان اور ایران کے اعلیٰ حکام کے ایک مشترکہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ کوئٹہ سے زاہدان تک 15 مال بردار گاڑیاں اور پاکستان سے ایران جانے والے زائرین کی سہولت کے لیے 15 روز میں ایک مسافر ٹرین محرم سے پہلے چلائی جائے گی۔
ریلوے کے ڈویژنل سپرٹنڈنٹ عامر علی نے وائس آف امر یکہ کو بتایا ہے کہ کوئٹہ تفتان ریلوے کی پٹری 1920ء میں بچھائی گئی تھی جسے مرمت کی سخت ضرورت ہے۔
عامر علی نے بتایا کہ اس ریلوے لائن پر 183 مقامات ایسے ہیں جہاں ٹرین کی رفتار بہت کم کرنا پڑتی ہے اور ان میں سے بیشتر مقامات پر نئے پُل تعمیر کرنے کی سخت ضرورت ہے جسے کے لیے بھاری وسائل درکار ہوں گے۔
ڈی ایس ریلوے کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی حکومتوں نے اس ٹرین سروس کو استنبول تک چلانے کے لیے تہران میں قائم اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے دفتر کو درخواست دی ہے اور ترکی کی حکومت سے منظوری کے بعد اسی مجوزہ ٹرین کو استنبول تک چلایا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے زاہدان تک مسافر ٹرین محرم سے پہلے چلانے کے لیے ایرانی حکام سے جلد مذاکرات ہوں گے جن میں تفصیلات طے کی جائیں گی۔
ڈی ایس ریلوے کا کہنا تھا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں گوادر کو ٹریک کے ذریعے چین سے ملانے کی ابتدائی رپورٹ بھی منظور کی جاچکی ہے جس کے تحت گوادر کو بسیمہ، مستونگ، کوئٹہ اور پشاور کے راستے چین کی سرحد سے ملایا جائے گا۔
پاکستان اور ایران کے درمیان ہونے والی تجارت کا حجم اس وقت ایک ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے اور دونوں ممالک نے اس تجارت کو 2021ء تک پانچ ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
اس مقصد کے لیے دونوں ممالک کے سرحدی علاقے میں رہنے والے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے پانچ مقامات پر تجارتی منڈیاں قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا لیکن اس فیصلے پر ابھی تک کو ئی قابلِ ذکر عمل در آمد نہیں ہوا ہے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان چلنے والی مال برداری گاڑی پر ماضی میں کئی بار حملے ہوچکے ہیں۔ لیکن ریلوے حکام کے بقول ان حملوں میں زیادہ جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا اور اب اگر مسافر ٹرین یا مزید مال بردار گاڑیاں چلائی جائی گی تو ان کے لیے سکیورٹی بھی بڑھائی جائے گی۔