رسائی کے لنکس

چھوٹی عمر میں خواجہ سرا کی شناخت اپنانے والے بچے اسے کئی برسوں تک ترک نہیں کرتے، تحقیق


خواجہ سرا بچے (فائل فوٹو)
خواجہ سرا بچے (فائل فوٹو)

امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جن بچوں کی چھوٹی عمر میں خواجہ سرا کے طور پر شناخت کی جاتی ہے، وہ اس کے بعد کئی برس تک پہلی شناخت سے منسلک رہتے ہیں۔

317 بچوں پر کی جانے والی تحقیق بدھ کے روز شائع ہوئی۔ اس دوران 3 سے 12 برس کے بچوں پر تحقیق کی گئی۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق تحقیق شروع ہونے کے پانچ برس بعد بھی یہ بچے خواجہ سرا کے طور پر زندگی گزار رہے تھے۔ ان بچوں میں سے دو تہائی بچے بلوغت کو روکنے یا تبدیلی جنس کی ادویات استعمال کر رہے تھے۔

اے پی کے مطابق ان 317 میں سے زیادہ تر بچوں کا تعلق متمول سفید فام گھرانوں سے تھا جنہوں نے اپنے بچوں کی تبدیلی جنس کی حمایت کی تھی۔ اوسطاً 6 برس کی عمر میں ان بچوں نے خواجہ سرا کے طور پر اپنے آپ کو شناخت کرانا شروع کیا۔

اس بات کا تعین نہیں ہو سکا کہ کم آمدن والے گھرانوں کے بچے، یا ایسے بچے جو بلوغت کے بعد خواجہ سرا کی شناخت اپناتے ہیں ان میں بھی اس سے مماثل نتائج برآمد ہوں گے۔

امریکہ بھر میں سیاست دان بچپن میں خواجہ سرا کی شناخت اپنانے والے افراد کے طبی طور پر تبدیلی جنس کی مخالفت میں یہ دلیل دیتے آئے ہیں کہ ایسے بچے بڑے ہو کر اپنا ذہن تبدیل کر لیتے ہیں۔

کچھ ڈاکٹرز کا بھی کہنا ہے کہ جب تک بچے بلوغت کی عمر تک نہ پہنچیں تبدیلی جنس کی ادویات اور سرجری کی سہولت انہیں نہیں دینی چاہئے مگر اس ضمن میں بہت زیادہ تحقیق نہیں کی گئی۔

بوسٹن چلڈرن ہسپتال کے جینڈر ملٹی سپیشلٹی سروس میں کام کرنے والی نفسیات دان کولین ولیمز کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق بہت مناسب وقت میں سامنے آئی ہے اور اس کی کافی ضرورت بھی تھی۔ ان کے مطابق جو لوگ خواجہ سرا بچوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ کام کرتے ہیں وہ بھی اسی بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جو بچے سماجی طور پر تبدیلی جنس کے عمل سے گزرتے ہیں وہ پھر اسی جنس میں رہنا چاہتے ہیں۔

کراچی: بکریاں چرا کر گزر بسر کرنے والی خواجہ سرا کی کہانی
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:15 0:00

اس تحقیق کے لیے چالیس سے زیادہ امریکی ریاستوں سے خواجہ سرا بچوں اور ان کے خاندانوں کو شامل کیا گیا۔

پرنسٹن یونی ورسٹی سے تعلق رکھنے والی نفسیات دان کرسٹینا اولسن کا جنہوں نے اس تحقیق کی سربراہی کی ہے،کہنا ہے کہ اس تحقیق کے دوران کچھ بچے اگرچہ اپنی پرانی جنس کی جانب لوٹ گئے لیکن اس تحقیق کے اختتام تک اکثر بچے اپنی خواجہ سرا شناخت پر ہی قائم رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے ہمارے روایتی ماڈل پر سوال اٹھتے ہیں جو افراد کی روائتی جنس یا خواجہ سرا ہونےمیں تفریق کرتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ 2013 میں جب یہ تحقیق شروع ہوئی تو اس وقت نان باینری کی اصطلاح ابھی زبان زدعام نہیں تھی اور زیادہ تر بچے مرد یا عورت کے لیے استعمال ہونے والے اسم ضمیر استعمال کر رہے تھے لیکن آگے جا کر یہ صورت حال تبدیل ہو گئی۔ اس تحقیق کے اختتام تک اوسطاً یہ بچے 12 برس کی عمر تک پہنچ چکے تھے۔

نان پرافٹ ادارہ سوسائٹی فار ایویڈنس بیسڈ جینڈر میڈیسین کا، جہاں کام کرنے والے طبی ماہرین چھوٹی عمر کے بچوں کی طبی طور پر تبدیلی جنس کے خطرات کے بارے خدشات رکھتے ہیں، کہنا تھا کہ اس تحقیق کے علاوہ موجود ثبوت زیادہ تعداد میں بچوں کے بلوغت یا نوجوانی میں خواجہ سرا شناخت کے ترک کرنے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اے پی کے مطابق کچھ ریسرچر اس تحقیق کے ڈیٹا میں خامیوں کی بھی نشاندہی کر رہے ہیں۔

اسی گروپ میں بطور ایڈوائزر کام کرنے والے ڈاکٹر ولیم میلون کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے موجود خدشات میں اضافہ ہوتا ہے کہ چھوٹی عمر میں خواجہ سرا کی شناخت دینے سے اسے ترک کرنے میں دشواری پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے کم عمر بچے ادوایات کا استعمال کرتے ہیں جو خطرات سے خالی نہیں ہوتیں۔

XS
SM
MD
LG