رسائی کے لنکس

لاک ڈاؤن سے خواجہ سراؤں کی مشکلات میں مزید اضافہ


 خواجہ سراؤں کی تنظیم کے مطابق فاقوں کے بعد اب خواجہ سراؤں کو سر چھپانے کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ (فائل فوٹو)
خواجہ سراؤں کی تنظیم کے مطابق فاقوں کے بعد اب خواجہ سراؤں کو سر چھپانے کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے گزشتہ ماہ مارچ کے تیسرے ہفتے میں لاک ڈاؤن کیا گیا جس سے کم آمدنی والے طبقہ شدید متاثر ہوا ہے تاہم خواجہ سرا متاثرین کی فہرست میں اوپر نظر آتے ہیں۔

پشاور میں خواجہ سراؤں کی تنظیم کی سربراہ فرزانہ خان کے مطابق فاقوں کے بعد اب خواجہ سراؤں کو سر چھپانے کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

فرزانہ خان نے کہا کہ وہ خواجہ سرا جو کرائے کے کمروں میں زندگیاں گزار رہے ہیں گزشتہ دو ماہ سے کرایہ ادا نہیں کر سکے ہیں۔ اسی وجہ سے اب ان کو مکان مالکان کمرے خالی کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں خواجہ سراؤں کی تعداد 50 سے 60 ہزار تک ہے۔

فرزانہ خان کے مطابق صرف پشاور میں خواجہ سراؤں کی تعداد 4500 سے زیادہ ہے۔

ان کے بقول پشاور کے علاوہ صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی خواجہ سرا موجود ہیں۔ ان خواجہ سراؤں سے ان کے والدین اور دیگر رشتے داروں نے قطع تعلق کر رکھا ہے۔

خواجہ سراؤں کے حوالے سے فرزانہ خان نے مزید کہا کہ یہ لوگ انفرادی طور پر یا ٹولیوں کی شکل میں کرائے کے کمروں میں رہتے ہیں۔ پشاور میں ہشتنگری، ڈبگڑی، بھانہ ماڑی، قصہ خوانی، گلبہار، گلبرگ، یونیورسٹی روڈ وغیرہ میں یہ لوگ رہائش پذیر ہیں۔

مارچ کے وسط میں نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن میں دیگر مزدور طبقے کی طرح خواجہ سرا بھی گھروں اور کمروں کے اندر رہنے پر مجبور ہیں۔

خیال رہے کہ اپنے گزر اوقات کے لیے زیادہ تر خواجہ سرا لوگوں کے گھروں میں خوشی کی تقریبات میں ناچتے یا گاتے ہیں۔ جس سے ان کے گزر اوقات ممکن ہو پاتے ہیں۔

لاک ڈاؤن کے نفاذ سے ملک کے دیگر علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی شادی کے تقریبات بڑے پیمانے پر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جس کے نتیجے میں خواجہ سراؤں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

خیبر پختونخوا کے بعض شہروں اور قصبوں میں لوگ انسانی ہمدردی کے بنیاد پر ان خواجہ سراؤں کی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ یہ امداد اور تعاون انتہائی محدود پیمانے پر کی جا رہی ہے۔

سب سے پہلے جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ سینیٹر سراج الحق نے چند روز قبل متاثرین میں امدادی سامان کی تقسیم کے وقت خواجہ سراؤں کو بھی اس میں شامل کیا تھا۔

سراج الحق نے جماعت اسلامی کی ذیلی فلاحی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن کے عہدیداروں کو بھی ہدایت کی کہ وہ دیگر متاثرین کے ساتھ ساتھ خواجہ سراؤں کو بھی خوراک اور دیگر امدادی اشیا فراہم کریں۔

خیبرپختونخوا میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خاتون رکن صوبائی اسمبلی رابعہ بصری نے جمعرات کو پشاور میں مقیم 25 خواجہ سراؤں میں امدادی اشیا تقسیم کیں جب کہ مزید 25 خواجہ سراؤں کو امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔

فرزانہ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی صورت حال نے خواجہ سراؤں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

انہوں نے حکومت، فلاحی اداروں، سیاسی و مذہبی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ خواجہ سراؤں کو مدد فراہم کرنے میں پہل کریں۔

فرزانہ خان نے کہا کہ ریڈ کراس نے پشاور اور خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر خواجہ سراؤں کے کوائف جمع کیے ہیں مگر ابھی تک کسی قسم کی امداد فراہم نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے بعض علاقوں میں مقامی خواجہ سراؤں کو امدادی اشیا دی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت نے بھی ابھی تک پشاور سمیت دیگر علاقوں میں رہنے والے خواجہ سراؤں کی مدد کے بارے میں کوئی واضح اعلان نہیں کیا۔

دوسری جانب جماعت اسلامی کے ذیلی ادارے الخدمت فاؤنڈیشن کے ترجمان نے بتایا کہ الخدمت کی جانب سے 370 کے قریب خواجہ سراؤں کو فوڈ پیکجز فراہم کیے گئے ہیں۔

اعداد و شمار فراہم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پشاور میں 13، چار سدہ میں 18، ہری پور میں 50، ایبٹ آباد میں 12 خؤاجہ سراؤں کی مدد کی گئی ہے۔

ان کے بقول کرک، ڈیرہ اسماعیل خان، نوشہرہ، مردان، مانسہرہ سمیت بعض دیگر اضلاع میں بھی خوراک یا اجناس پر مشتمل فوڈ پیکجز تقسیم کیے گئے ہیں جن کی تعداد 240 کے قریب ہے۔

XS
SM
MD
LG