عادل گیلانی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے سربراہ ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے گزشتہ ماہ دنیا بھر کے بد عنوان ممالک کی فہرست شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں بدعنوانی میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ فہرست کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اس ادارے نے حکمران جماعت پر ایک بھاری رقم خردبرد کرنے کا بھی الزام لگایا ہے ۔ اس الزام کے بعد عادل گیلانی پر مختلف شخصیات کی جانب سے متعدد الزامات عائد کئے گئے اور ملکی میڈیا میں ایسی بحث چھڑی کہ اب تک تھمنے میں نہیں آرہی۔ یہی ادارہ 9 دسمبر کو "گلوبل کرپشن بیرومیٹر" کے نام سے نئی رپورٹس سامنے لارہا ہے جس میں یقینا پاکستان بھی شامل ہوگا۔
دوسری جانب عادل گیلانی کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کی نشاندہی کے بعد انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ دھمکیاں دینے والے کون لوگ ہیں ، کیا چاہتے ہیں اور الزامات کی صفائی کے سلسلے میں خود عادل گیلانی کیا کہتے ہیں ، اس حوالے سے وائس آف امریکا نے عادل گیلانی سے ایک خصوصی انٹرویو کیا جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
وی او اے : آپ کے ادارے کی جانب سے بدعنوانی کی نشاندہی کے ساتھ ہی آپ کے خلاف ایک محاذ کھل گیا ہے۔ کوئی آپ کے ادارے کو کاغذی کہتا ہے تو کوئی خود آپ کو بدعنوان کہتا ہے۔ آپ اپنا دفاع کس طرح کریں گے؟
عادل گیلانی : آپ نے توکم الزامات گنائے ہیں ورنہ اس وقت سب سے زیادہ مورد الزام مجھے ہی ٹھہرایا جارہا ہے۔ مجھ پر تخت لاہور کا کارکن ہونے کا الزام ہے، پی ایس او سے پلاٹ اور پیٹرول پمپ لینے کا قصور وار بھی میں ہی ٹھہرایا گیا ہوں۔ سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ میں نے اکبر بگٹی مرحوم کے خلاف الٹی سیدھی باتیں کی ہیں۔ اس الزام کا مقصد یہ ہے کہ کوئی نہیں تو اکبر بگٹی کے شیدائی ہی مجھے مارنے آجائیں۔ ایسے لوگوں نے بھی مجھ پر الزامات کی بوچھاڑ کی ہے جن پر خود کئی کئی کروڑ روپے کی بدعنوانی کے الزامات ہیں۔ ان کی تو اپنی ڈگریوں تک سے متعلق سوالات زیر گردش ہیں۔ اصل میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کو کاغذی ادارہ قرار دینے والوں کے پاس ہمارے حوالے سے بہت محدود معلومات ہیں۔ الزامات کو اس وقت تک درست نہیں کہا جا سکتا جب تک عدالت میں ثابت نہ ہو جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان الزامات کے پیچھے خاص مقاصد ہیں ۔ سب سے بڑا مقصد یہی ہے کہ ہم کیری لوگر بل کے تحت پاکستان کو ملنے والی امریکی امداد کی مانیٹرنگ نہ کریں ۔ ہمیں روکنے کے لئے ہی یہ ساری مہم چلائی جا رہی ہے ۔
آپ کس حوالے سے کیری لوگر بل کی مانیٹرنگ کررہے ہیں؟
24 ستمبر 2009کو کیری لوگر بل کانگریس سے پاس ہونے کے بعد امریکی حکومت نے سب سے زیادہ زور اس نقطے پر دیا کہ کیری لوگر بل کے تحت ملنے والی امداد کو بدعنوانی سے کیسے بچایا جائے۔ اس کیلئے سیکریٹری آف اسٹیٹ کو 45 یوم میں سفارشات پیش کرنے کی ہدایات دی گئیں ۔ کانگریس کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ ہر چھ ماہ کے بعد جائزہ لیا جائے گا کہ جو امداد دی گئی ہے اس کا درست استعمال ہو رہا ہے یا نہیں ۔ اس کے بعد یو ایس ایڈ نامی ادارے نے ہم سے رابطہ کیا کیونکہ یو ایس ایڈ اس سے قبل بھی بہت سے منصوبوں پر ہمارے ساتھ مل کر کام کر تی رہی ہے ۔ ہم نے یقین دہانی کرائی کہ اس معاملے میں ہر طرح کی شفافیت ہو گی لیکن اس کے لئے ہم نے شرط عائد کی کہ جو پیسہ خرچ ہو گا وہ یوایس ایڈ قوانین کے مطابق نہیں بلکہ حکومت پاکستان کے قوانین کے تحت خرچ ہو گا کیونکہ یو ایس قواعد کے مطابق امریکا کے کنسلٹنٹ اور کنٹریکٹر وغیر پاکستان آتے اور پاکستان میں جو کام سو روپے میں ہو سکتا ہے وہ سو ڈالرز میں ہوتا یعنی تقریبا اسی گنا مہنگا۔ شروع میں انہوں نے یہ شرط تسلیم کرنے سے انکار کر دیا مگرپھر تین چار ماہ کے مسلسل مذاکرات کے بعد انہوں نے ہماری یہ شرط مان لی اور معاہدے پر رضامندی ظاہرکر دی ۔ 22 ستمبر دو ہزار دس کومعاہدے پر دستخط ہو گئے۔ پاکستان کیلئے فخر کی بات ہے کہ پہلی بار پاکستان کے لئے یو ایس ایڈقوانین میں تبدیلی کی گئی ۔ہمارے دستخط کے بعد تیس ستمبر دو ہزار دس کو حکومت پاکستان کے ساتھ معاہدہ طے پایاورنہ ہماری شرائط کے بعد یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہوگیا تھا ۔ یوں کہہ لیجئے کہ ہم کیری لوگر بل کا پیسہ پاکستان لانے کا اہم ذریعہ بنے ، جبکہ اب ہمیں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
کس قسم کی دھمکیاں؟ اور کون لوگ یہ دھمکیاں دے رہے ہیں؟
موت کی دھمکیاں۔ابھی تک کسی نے ٹیلی فون پر دھمکی نہیں دی کیوں فون ٹیپ ہو جاتا ہے البتہ مختلف لوگوں کے ذریعے مجھے ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
آپ نے کیری لوگر بل کی مانیٹرنگ کے لئے کیا حکمت عملی ترتیب دی ہے؟
کیری لوگر بل کی مانیٹرنگ کے لئے نہایت سخت رولز بنائے گئے ہیں کہ اگر کوئی کرپشن کرنا بھی چاہے تو بھی نہیں کر سکے گا۔ اس کے لئے کمپلین ہاٹ لائن بنائی ہے جو دراصل اینٹی فراڈ ہاٹ لائن ہے جس کے تحت لوگ ٹیلی فون کے ذریعے، آن لائن یعنی ای میل کے ذریعے یا خوددفتر آکر کرپشن سے متعلق شکایت درج کروا سکتے ہیں ۔پاکستانی قوانین کے تحت شناخت ظاہر کیے بغیر کوئی بھی شکایت قابل قبول نہیں ہوتی تاہم ہم امریکا اور یورپ کی طرز پر نامعلوم کالز کی شکایت پر بھی کارروائی کریں گے ۔ اس کے لئے میڈیاکے ذریعے عوام میں آگاہی پیدا کی جائے گی اوریہ سہولت ہر جگہ فراہم ہو گی ۔ کیری لوگر بل کے تحت وفاقی و صوبائی حکومتوں سمیت ملکی و غیر ملکی این جی اوز اوریواین ایجنسیوں وغیرہ کی الگ الگ فنڈنگ ہو گی ۔ ہمارا اسٹاف ان شکایات کی مانیٹرنگ کرے گا اور رجسٹریشن کے بعد انسپکٹر جنرل یو ایس ایڈ کو آگاہ کر دے گا ۔ اگر ہمارے راستے میں حکومت کی جانب سے روڑے نہ اٹکائے گئے تو ہمیں یقین ہے کہ اس کا استعمال صاف و شفاف ہو گا ۔
کیری لوگر امداد کا استعمال کہاں ہو گا اور یہ امداد کب ملنا شروع ہو گی؟
امریکا اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اور افغان جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں لہذا وہاں کے عوام نے کیری لوگر بل کے ذریعے پاکستانی عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے ساڑھے سات ارب ڈالرکی امدادکا اعلان کیا ہے۔ یہ امداد صرف عوام کیلئے ہو گی ۔ امداد تعلیم اور طب کے شعبے کے علاوہ سڑکوں اور دیگر فلاحی منصوبوں پر خرچ کی جائیگی ۔ اس کی پہلی قسط آچکی ہے، جودو پروجیکٹ میں امداد کا باعث بنی ہے ۔ بے نظیر انکم سپورٹ اور ہائیر ایجوکیشن کے لئے 75 ،75 ملین ڈالرز ادا کئے جا چکے ہیں ۔ یعنی اب تک مجموعی طور پر 150 ملین ڈالرامداد دی جا چکی ہے ۔
کیا ان ساڑھے سات ارب ڈالر امداد میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا ؟
نہیں۔ فوج کی جانب سے گزشتہ ماہ ایک ٹیم نے جو دورہ واشنگٹن کیا تھا اس میں طے پایا تھا کہ فوج کو دو بلین ڈالرز دیئے جائیں گے۔ ہمارا معاہدہ صرف کیری لوگر بل تک محدود نہیں بلکہ یو ایس ایڈ کے ہر پروجیکٹ کی نگرانی ٹی آئی پاکستان ہی کرے گی اور فوج کو بھی جو پیسہ دیا جائے گا اس کی نگرانی بھی ہم ہی کریں گے ۔ جنرل کیانی نے آتے ہی بہت سے اچھے اقدامات کیے ہیں مثال کے طور پر انہوں نے فوجیوں کو سینئر پوسٹوں سے ہٹا دیا، ڈی ایچ اے کے مسائل کو الگ الگ کر دیا، این ایل سی سے متعلق بھی بیان آپ کے سامنے ہے، تو اب جو پیسہ فوج کو ملے گا اس کی بھی نگرانی ہوگی ۔قومی اسمبلی میں جو احتساب بل پیش کیا جائے گا اس میں بھی فوج شامل ہو گی ۔
آپ نے بہت بھاری ذمے داری لے لی ہے ، اس کے لئے بہت سے لوگ بھی چاہئیں ہوں گے جبکہ آپ پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ آپ کاچھوٹا سا دفتر ہے اور صرف دو آدمی یہاں کام کرتے ہیں؟
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے خلاف یہ پروپیگنڈا ہے ۔ایک نجی ٹی وی چینل نے یہ رپورٹ چلائی تھی جس پر ہم نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر کے ٹی وی چینل اور اس کے ایم ڈی کو ایک ارب روپ ہرجانے کا نوٹس بھی بھجوا دیا ہے ۔کورٹ نے بھی حکم دیا ہے کہ عادل گیلانی اور یہ ادارہ اب ایک دوسرے کے حوالے سے بات نہیں کریں گے تاہم 30 نومبر کو اسی گروپ کے ایک انگریزی اخبار نے پھر خبرچھاپی کہ یو ایس ایڈ کے ساتھ ایک متنازعہ ادارے کا معاہدہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس 22 لوگوں کا اسٹاف ہے اور دو فلورز پر مشتمل ہمارا دفتر ہے ۔ اس تمام تر پروپیگنڈے کا مقصدیہ تھا کہ ہم ہاٹ لائن آپریٹ نہ کر سکیں ۔ اس کے علاوہ ہم نے ایک صوبائی گورنر کو بھی پچاس کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوایا ہے ۔ گورنر نے اپنے ایک اور انٹرویوکے دوران بھی ہمارے خلاف بیان بازی کی تھی جس پرمیگزین اورگورنر کو پچیس ، پچیس ملین ڈالرہرجانے کا نوٹس جلد بھجوایا جائے گا۔
آپ پر کے پی ٹی میں ملازمت کے دوران بدعنوانی کے الزامات بھی ہیں، اس میں کس حد تک سچائی ہے ؟
یہ بھی اسی ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہا گیا ہے جسے ہرجانے کا نوٹس بھیجا گیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ 1989 میں کے پی ٹی میں ورلڈ بینک کے ایک منصوبے کے حوالے سے مجھے پروجیکٹ ڈائریکٹر کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ ادارے کی معاشی حالت کو بہتربنانے کیلئے ورلڈ بینک نے گولڈن ہینڈ شیک اسکیم بھی شروع کی اور اس کا میں انچارج بھی تھا ۔ لیکن بعد میں، میں نے دیکھا کہ یہاں میری کچھ وجوہات کی بناء پر بات نہیں بنے گی لہذا سن دو ہزار میں، میں نے گولڈ ن ہینڈ شیک لے لیا ۔ میں پہلا آدمی تھا جس نے گولڈن ہینڈ شیک لیا ۔ آج بھی مجھے وہاں سے پنشن ملتی ہے اگر میں نے وہاں کوئی بدعنوانی کی ہوتی تو مجھے کوئی مراعات نہیں ملتیں۔ جب کورٹ میں بھی کسی کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ زیر سماعت ہوتا ہے تب بھی مراعات ختم ہو جاتی ہیں جیسا منصور الحق کے ساتھ ہوا۔ ان سے تمام میڈلز واپس لے لئے گئے تھے اور مراعات بھی ختم کردی گئی تھیں، مگر مجھے پنشن مل رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ میں نے کوئی بدعنوانی نہیں کی۔
وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان غیر قانونی ہے اوراسے کام کی اجازت نہیں دیں گے؟
ان کے اس بیان پر جرمنی میں موجود ٹی آئی کے چیئرمین اورٹی آئی پاکستان نے سپریم کورٹ کو ایک خط ارسال کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کا یہ بیان ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے لہذا کارروائی کی جائے ۔ ہم ایک اچھا کام کر رہے ہیں لیکن ہمیں روکنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ لہذا یہ اب یہ مسئلہ عدالت میں ہے۔ اگر ہمیں غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے تو ہم یہ فیصلہ من و عن تسلیم کر لیں گے ۔ ہم کوئی غیر قانونی کام نہیں کررہے ۔ عدلیہ کے اعلیٰ ججز سمیت دیگر اہم شخصیات بھی ہمارے ٹرسٹی ہیں۔ مثلاً سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس عاصم الخیری ،ہائی کورٹ کے جسٹس (ر)ڈاکٹر غوث، یاسمین لاری صاحبہ،سہیل مظفر صاحب اور ارشد زبیری صاحب جو اب ایف بی آر کے ٹاسک فورس کا حصہ ہیں ۔
اگرٹی آئی پاکستان کو یہاں کام کرنے کی اجازت نہیں ملے گی تو کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
اس وقت مختلف منصوبوں کا یوایس ایڈسے ہمارا معاہدہ ہو چکا ہے۔ اگر ہمیں کام کرنے سے روکا جاتا ہے تو کانگریس کیری لوگر بل کی امداد میں رکاوٹ بنے گی ۔ اس کے علاوہ سندھ میں ورلڈ بینک کے 175 ملین ڈالرز کے معاہدے کی نگرانی بھی ہم کر رہے ہیں لہذا اس میں بھی خلل واقع ہو سکتا ہے جو ہم نہیں چاہتے کیونکہ ان دونوں معاہدوں میں ہماری شمولیت انتہائی ضروری ہے ۔
کیاٹی آئی کے پاس بدعنوانی کے ثبوت ہوتے ہیں ؟
ہمارا کام کسی بھی ادارے میں کرپشن کی نشاندہی کرنا ہے۔ اگر ہمیں شکایات موصول ہوتی ہیں تو ہم ان سے نیب ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی، پی پی آر اے ریگولر اتھارٹی ، آڈیٹرجنرل پاکستان اور سپریم کورٹ سمیت متعلقہ حکام کو خطوط یا دیگر ذرائع سے آگاہ کر دیتے ہیں ۔ اب یہ تحقیقاتی اداروں کا کام ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں ۔سپریم کورٹ نے ہماری رپورٹوں پر رینٹل پاور ، نیشنل انشورنس ، اسٹیل مل وغیرہ میں اربوں کھربوں کی کرپشن کا نوٹس لیا جس کے بعد کھلبلی مچ گئی ہے ۔
آپ کا سروے کا طریقہ کار کیا ہے؟
سروے ہم لوگ خود نہیں کرتے بلکہ یہ ورلڈ بینک ، اکنامک فورم ، ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف کرتے ہیں جو کرپشن کی الگ الگ رینکنگ دیتے ہیں، ہم ان کو جمع کر کے ان کی اوسط نکالتے ہیں جس کے بعد نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے ۔
گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اس بار سالانہ رپورٹ پر اس قدر سخت رد عمل کیوں سامنے آیاہے ؟
بے شک ، گزشتہ سال تو ہماری رپورٹ پر وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے شوکت ترین کی سربراہی میں چاروں سیکریٹریز پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی تھی اورتحقیقات کا حکم بھی دیا تھا ، اس وقت وزیر اعظم سمیت کابینہ نے بھی ہم سے میٹنگ کی تاہم اس کے بعد یو ایس ایڈ سے معاہدہ ہو گیا اور سپریم کورٹ نے جب ہماری رپورٹس پر کارروائی شروع کی تو حالات یکسر مختلف ہو گئے کیونکہ اس میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام سامنے آنے لگے ہیں ، اب حکومت پریشان ہو گئی ہے کہ اس کو کس طرح سے روکا جائے ۔
کسی بھی جگہ ، ملک یا ادارے میں کرپشن کی وجوہات کیا ہوتی ہیں ؟
احتساب کا نہ ہونا بدعنوانی کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ نیب کو غیر فعال کر دیا گیا ہے اور اس کا اسی فیصد بجٹ کم کر دیا گیا ہے، اگر کوئی کرپشن کرتا ہے تو این آر او جیسے قوانین کے تحت اسے معافی مل جاتی ہے۔ اس سے بدعنوانی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ این آر او کرپشن میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے ۔
کرپشن کی روک تھام کیلئے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں ؟
احتساب، میرٹ پر بھرتیاں اور مارکیٹ کے مطابق تنخواہوں کی ادائیگی سے کافی حد تک کرپشن کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔جہاں تک وزیر داخلہ کی جانب سے کرپشن کے خلاف کارروائی کے اعلان کا تعلق ہے تو یہ اچھا اقدام ہے تاہم ضرورت اس پر عمل کی ہے ۔ اس کی مانیٹرنگ میڈیا اور عوام کریں گے، نتائج میں کچھ وقت لگے گا ۔یہ اعلان بھی ہماری رپورٹ کے بعد آیا ہے ۔ بائیس مارچ کو چیف جسٹس نے بحالی کے بعد اعلان کیا تھا کہ انہوں نے ہائی کورٹس میں کرپشن کے خلاف ادارے بنائے ہیں اور رجسٹرارز کو ہدایت کی ہے کہ وہ بدعنوانی سے متعلق شکایات موصول کریں ۔ جہاں تک اس کے اثرات کا تعلق ہے تو یہ دہشت گردی ،ناخواندگی ، غربت اورخودکشیوں کی بنیادی وجہ ہے ۔کرپشن سے معاشرے میں بے اعتمادی پھیلتی ہے ۔
پاکستان میں کرپشن کب ختم ہو سکتی ہے؟
کرپشن تو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ کرپشن تو امریکا ، ڈنمارک اور یورپ میں بھی پائی جاتی ہے ہاں یہ ضرورہے کہ اگر احتساب بل آتا ہے اور قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے تو آئندہ دو سال کے عرصے میں ہم کرپشن سے پاک پہلے بیس ممالک کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں ۔