پاکستان میں بعض سرکاری اداروں میں بدعنوانی کے رجحان میں کمی آئی ہے اور بدعنوان ترین ممالک کی نئی فہرست میں ملک کا نمبر 42 دکھایا گیا جو 2010ء کے مقابلے میں آٹھ درجے بہتری کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ انکشاف ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کیا ہے جس کا اجراء جمعرات کو کیا گیا۔
تنظیم کے پاکستان میں چیئرمین سہیل مظفر کے مطابق ’’پاکستان میں بدعنوانی کے مسئلے کا اعتراف ایک اچھی علامت ہے، اب سرکاری اداروں کو عوام کے سامنے جوابدہ بنانے کے لیے مزید موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ملک میں بدعنوانی میں کمی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی اچھی کارکردگی کی بدولت 2008ء سے 2011ء کے دوران بدعنوانی کی نظر ہونے والے 115 ارب روپے کی قومی خزانے میں واپسی ممکن ہوئی۔
مزید برآں 2009ء میں قومی عدالتی پالیسی کے تحت عدلیہ میں بدعنوانی کو بالکل ناقابل برداشت قرار دینے، وزارت دفاع کی طرف سے فوجی محکموں میں خریداری کے قوائد و ضوابط کا نفاذ اور وفاقی محتسب کے دفتر کو شفاف ترین قراد دیا جانا بھی شامل ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے ایک اعلیٰ عہدیدارعادل گیلانی کا کہنا تھا کہ ان تمام تر کوششوں کے باوجود کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبے اور حج انتظامات میں کرپشن کے اسکینڈلز کے باعث ملک میں بدعنوانی میں کمی جیسی مثبت پیش رفت دب کر رہ گئی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ سرکاری محکموں میں بدعنوانی کے بارے میں سپریم کورٹ میں چلائے جانے والے مقدمات میں عدالت نے کارروائی کرتے ہوئے اربوں روپے وصول کروائے ہیں۔