امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس نے کہا ہے کہ چین کا 'ون بیلٹ ون روڈ'منصوبہ ایک متنازع علاقے سے گزرتا ہے اور ان کے بقول اسی لیےایسے منصوبے شروع کرنے کے اپنے مضمرات ہو سکتے ہیں۔
امریکی وزیر دفاع نے یہ بات رواں ہفتے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں ایک بریفنگ کے دورا ن کہی۔
اگرچہ جم میٹس نے پاکستان میں تعمیر ہونے والے اربوں ڈالر سے زائد مالیت کی چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کا نام لیے بغیر یہ بیان دیا ہے لیکن سی پیک ایک بڑے چینیمنصوبے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ یعنی ایک پٹی اور ایک شاہراہ کا حصہ ہے جو گلگت بلتستان سے گزر کر چینی شہر کاشغر کو پاکستان کےساحلی شہر گودار کے ساتھ جوڑ دے گا۔
واضح رہے کہ بھارت یہ کہتے ہوئے اس منصوبے پر معترض رہا ہے یہ راہداری ایک ایسے علاقے سے گزرتی ہے جو متنازع ہے، تاہم اسلام آباد نئی دہلی کے اس اعتراض کو مسترد کر چکا ہے۔
پاکستان کی طرف سے امریکی وزیر دفاع کے بیان پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں ہے اور پاکستانی دفتر خارجہ کے عہدیدار نے ہفتے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بیان کو پوری طرح دیکھنے کے بعد اس پر اپنا ردعمل دیں گے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلق پارلیمان کی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ون بیلٹ ون روڈ کا محور صرف جنوبی ایشیا نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کے کئی خطوں کو ایک دوسرے سے اقتصادی طور پر مربوط کرنے کا منصوبہ ہے۔
"ون بیلٹ ون بیلٹ کا جو بنیادی محور ہے وہ جنوبی ایشیا نہیں ہے ۔ اس کے ایک حصے یعنی سی پیک سے متعلق انہوں نے جو متنازع ہونے کا اشارہ دیا ہے اس سے ان کی ہندوستان نواز پالیسی کا عکاس ہے اور صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کی حکمت عملی کے ساتھ بھی اس کا ربط ہے ۔"
مشاہد حسین نے مزید کہا کہ ایسے بیانات ناصرف علاقائی تقیسم کا باعث بنیں گے بلکہ ان کی وجہ سے ناصرف پاکستان اور بھارت، پاکستان اور امریکہ بلکہ چین اور امریکہ کے درمیان بھی تناؤ کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔
"میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کے لیے ایک اچھا موقع تھا کہ ایک ایسا منصوبہ جو علاقائی تعاون کا منصوبہ ہے جس میں لوگ اپنی رضامندی کے ساتھ علاقائی تعاون قائم کر رہے ہیں اس کی حمایت کرے۔ اس سے کشیدگی کم ہو گی اور تعلقات فروغ پائیں گے اس کی مخالفت کرنے کا صرف نظریاتی اور اسٹریٹجک جواز ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ دور اندیشی کی پالیسی نہیں ہے۔"
امریکہ کے صدر ٹرمپ کی 21 اگست کو افغانستان اور خطے سے متعلق پالیسی کے اعلان کے بعد اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں سرد مہری دیکھی گئی تھی تاہم حالیہ ہفتوں میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے اعلیٰ سطح کے رابطوں کو مبصرین ایک خوش آئند پیش رفت قرار دے چکے ہیں۔