امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس کے ایسٹ روم میں سینیٹ کی جانب سے مواخذے کے الزامات سے بریت کا جشن منایا، جس اقدام کے نتیجے میں انھیں ہٹائے جانے کا فوری خطرہ ٹل گیا۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’’میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ زندگی میں مجھ سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ لیکن، یہ دانستہ نہیں تھیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’نتیجہ سامنے ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے صدر نے روزنامہ ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ کی کاپی لہرائی جس کے سر ورق پر جَلی حروف سے شہ سرخی میں لکھا تھا: ’’ٹرمپ برَی‘‘۔
ہال میں ان کی قانونی ٹیم، اپنی کابینہ کے چند ارکان، ریپبلیکن قانون ساز اور وائٹ ہاؤس عملہ موجود تھا، جنھوں نے ان کے 63 منٹ کے خطاب کے دوران کئی بار تالیاں بجائیں۔
مواخذے کا ذکر کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ’’مجھے یہ لفظ بہت ہی برا لگتا ہے۔ لیکن، اس کی جگہ اب ہمارے سامنے ایک شاندار لفظ ہے: بَریت۔‘‘
اس سے قبل، ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی کے ایک ہوٹل میں منعقدہ ’نیشنل پریئر بریک فاسٹ‘ کی تقریب میں شریک اجتماع کو روزنامہ’یو ایس اے ٹوڈے‘ کی کاپی دکھائی، جس سے ایک ہی روز قبل سینیٹ نے مواخذے میں شامل دونوں الزامات مسترد کرتے ہوئے انھیں بری قرار دیا، جب کہ قصور وار قرار دیے جانے کی صورت میں انھیں عہدہ صدارت سے ہٹایا جاتا۔
ٹرمپ ایک طویل عرصے سے ڈیموکریٹس کی جانب سے ان کے مواخذے کی کوششوں کا مذاق اڑاتے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا ہے کہ ’’چند انتہائی بے ایمان اور بدعنوان افراد نے ملک کو شدید مشکل میں ڈال دیا تھا۔ ہمیں تباہ کرنے کی غرض سے انھوں نے ہر ممکن کوشش کر لی، اور ایسا کرتے ہوئے ہمارے ملک کو بری طرح سے نقصان پہنچایا۔ انھیں معلوم ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ غلط ہے۔ لیکن، انھوں نے اپنی ذات کو ملک سے بالاتر سمجھا‘‘۔
ٹرمپ نے ’’باہمت ریپبلیکن سیاست دانوں اور رہنماؤں‘‘ کی تعریف کی، جن سب نے مواخذے میں شامل الزامات کو مسترد کرنے میں ان کی حمایت کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’ان میں دانش، برداشت اور طاقت ہے جس کی مدد سے انھوں نے وہی کیا جو درست تھا، جس کا سبھی کو یقین تھا‘‘۔
لیکن، نام لیے بغیر، انھوں نے ریپبلیکن پارٹی کے سینیٹر مِٹ رومنی کی مذمت کی، جنھوں نے اختیارات کے غلط استعمال کے الزام پر مواخذے کی رائے شماری کے دوران ٹرمپ کو قصور وار ٹھہرایا، یہ کہتے ہوئے کہ ان کے بلند مسیحی عقیدے کے مطابق وہ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے معاملے پر غلط کام کو درست قرار نہیں دے سکتے۔ لگائے گئے الزام میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹرمپ نے یوکرین پر زور ڈالا کہ وہ 2020ء میں ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے اپنے ممکنہ حریف اور سابق نائب صدر، جو بائیڈن کے خلاف تفتیش شروع کرے۔
ٹرمپ کے بقول، ’’میں ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنی سوچ کو درست قرار دینے کے لیے اپنے مذہب کا استعمال کریں، جب کہ انھیں پتا ہو کہ وہ جو کہہ رہے ہیں وہ غلط ہے‘‘۔
انھوں نے مواخذے کی کارروائی میں نمایاں ڈیموکریٹک پارٹی کی اپنی مخالف، اور ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کی بھی مذمت کی، جن کے بارے میں انھوں نے کہا کہ مواخذے کی تفتیش کے دوران بھی وہ صدر کے لیے دعائیں مانگ رہی تھیں۔
ٹرمپ کے بقول، ’’میں ایسے افراد کو پسند نہیں کرتا جو یہ کہیں کہ میں آپ کے لیے دعاگو ہوں، جب کہ انھیں پتا ہے کہ وہ غلط بیانی سے کام لے رہی ہیں‘‘۔
ادھر بدھ کی رات مواخذے سے متعلق فیصلہ آنے کے فوری بعد صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’’مواخذے کے فریب کے معاملے پر ہمارے ملک کو فتح حاصل ہوئی۔‘‘۔
بدھ کی شام سینیٹ کے چیمبرز میں ہونے والے اجلاس کی صدارت چیف جسٹس جان رابرٹس نے کی، جس میں انھوں نے مواخذے کے دونوں الزامات پر سینیٹروں کی الگ الگ رائے شماری کرائی۔ اختیارات کے غلط استعمال کے الزام کی موافقت میں 48 تھے جب کہ 52 سینیٹروں نے مخالفت میں ووٹ دے کر تحریک مسترد کی۔ کانگریس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام پر ووٹنگ میں 53 سینیٹروں نے مخالفت میں جب کہ 47 نے موافقت میں ووٹ دیا۔
سینیٹ کی حتمی رائے شماری کے بعد امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹ ارکان کی جانب سے ٹرمپ کو عہدے سے ہٹانے کی تقریباً چار ماہ سے جاری کوششیں دم توڑ گئیں۔
اس پر بیان جاری کرتے ہوئے، وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ٹرمپ کو تائید ملی، جنھیں باعزت بری کر دیا گیا۔ بیان میں ایوان نمائندگان کی سرزنش کا مطالبہ کیا گیا ہے جنھوں نے مبینہ طور پر غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے، من گھڑت مقدمے کی مدد سے صدر کو ہدف بنانے کی کوشش کی۔
پیلوسی، جنھوں نے ستمبر میں مواخذے کی کارروائی کی ابتدا کی، ایک بیان میں سینیٹ پر ’’لاقانونیت کو جائز‘‘ قرار دینے کا الزام لگایا، جس کے نتیجے میں اختیارات کے توازن کے نظام کو مسترد کیا گیا۔