جمعرات کے روز ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر جیمز کومی نے اس سلسلے میں یہ بیان دیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی انتخابی مہم کے روس کے ساتھ مبینہ رابطوں پر ایف بی آئی کی تفتیشی کارروائی کو متعدد بار کوشش کی گئی ۔ اگر یہ سچ ہوئے تو یہ ان دنوں کو اجاگر کریں گے جب ایف بی آئی باقاعدہ طور پر صدر کے احکامات سنتا تھا۔
جمعرات کے روز اپنی گواہی کے دوران ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر جیمز کومی نے ایک مستقل موضوع پر زور دیا اور وہ تھا ایف بی آئی کی غیر جانبداری۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آئی دیانت دار ہے، ایف بی آئی مضبوط ہے ۔ ایف بی آئی غیر جانبدار ہے اور ہمیشہ غیر جانبدار رہے گا۔
یہ ان تما م الزامات میں وہ مشترکہ نکتہ تھا جو مسٹر کومی نے صدر ٹرمپ پر لگائے تھے ۔ خواہ وہ ٹرمپ کی جانب سے کومی سے وفاداری کے وعدے کا مطالبہ تھا، یا یہ کہ انہوں نے کومی پر ان کے سیکیورٹی کے سابق مشیر کے بارے میں ایک تفتیش ختم کرنے پر زور تھا ۔ مسٹر کومی نے یہ واضح کر دیا کہ وہ ٹرمپ کو اس پرانی رکاوٹ کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں جو صدارت کو ایف بی آئی کے معاملات میں مداخلت سے روکتی ہے۔
لیکن وہ رکاوٹ ہمیشہ سے موجود نہیں تھی۔ در حقیقت امریکی صدور نے عشروں تک قریبی طور پر اور اکثر أوقات غیر مناسب طریقے سے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جے ایجر ہوور کے ساتھ کام کیا ہے جنہوں نے لگ بھگ پچاس سال تک بیورو کی قیادت کی تھی۔
پین سٹیٹ یونیورسٹی میں ایف بی آئی کے بارے میں ایک تاریخ دان ڈگلس چارلس نے اسکائپ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آی وائٹ ہاؤس کا ایک لازمی سیاسی انٹیلی جینس ونگ تھا ۔ جو خارجہ پالیسی کے نقادوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتا تھاتاکہ انہیں کمزور کرنے میں مدد کی جائے ۔ یہ سلسلہ آخر کار اس وقت ختم ہوا جب محکمہ انصاف نےا س بارے میں راہنما أصول جاری کیے کہ ایف بی آئی کو وہائٹ ہاؤس سے کس طرح ربط ضبط رکھنا ہو گا۔
ڈگلس چارلس کہتے ہیں کہ محکمہ انصاف کے موجودہ راہنما اصولوں کے مطابق صرف اٹارنی جنرل یا ڈپٹی اٹارنی جنرل ہی وہائٹ ہاؤس کے ساتھ رابطے کر سکتے ہیں اور یہی معیار ہے۔
اس کے علاوہ کوئی بھی چیز خلاف معمول ہے۔ کسی صدر کی جانب سے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر سے کسی تفتیش کو ختم کرنے پر زور دینا در حقیقت بہت غیر معمولی ہو گا ۔ لیکن یہاں ایک اور نکتہ سامنے آتا ہے اور وہ جسٹس ڈپارٹمنٹ کے راہنما أصول ہیں، وہ قانون نہیں ہیں ۔ وہ صرف راہنما أصول ہیں ۔اور یہی وہ نکتہ ہے جو صدر ٹرمپ کی صورت حال کو پیچیدہ کرتا ہے۔
کیا مسٹر کومی کے ساتھ مسٹر ٹرمپ کا رویہ محض راہنما اصولوں کی خلاف ورزی ہے یا انہوں نے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
امیریکن یونیورسٹی کے کرس ایڈلسن کے مطابق اس مرحلے پر یہ کہنا مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسرا مسئلہ اگرچہ ایک سیاسی مسئلہ ہے ۔ اور آیا وہ أصل جرائم ہیں یا نہیں، اسے اس وقت ایک قابل بھروسا وہائٹ ہاؤس کے طور پر دیکھنا مشکل ہے۔
ٹرمپ کے وکلا کومی کی گواہی کے کلیدی حصوں کو مسترد کرتے ہیں ۔ تاہم یہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک مسئلہ ہے جو اس سے ابھی جلد کسی وقت چھٹکارا حاصل کرتے نہیں دکھائی دیتی۔