سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو دار الحکومت واشنگٹن کی ایک وفاقی عدالت میں سال 2020 کے الیکشن کے نتائج کو الٹانے کی سازش کے تمام الزامات مسترد کردیے۔ اگلی سماعت 28 اگست کو ہوگی۔
ٹرمپ نےکہا کہ یہ "امریکہ کے لیے انتہائی افسوسناک دن" ہے۔انہوں نے نیو جرسی واپس جانے کے لیے ہوائی جہاز میں سوار ہونے سے پہلے ایک مختصر بیان میں کہا کہ ہم امریکہ میں ایسا نہیں ہونے دے سکتے۔
انہوں نے اس مقدمے کواذیت دینے کی ایسی کارروائی قرار دیا جس کا مقصد 2024 کے صدارتی انتخاب کے لیے ان کی مہم کو نقصان پہنچانا ہے۔
ٹرمپ کی طرف سے الزامات کی صحت سے انکار کے بعد عدالت کی طرف سے مقدمے کی اگلی سماعت کے لیے دی گئی تین تواریخ میں سے ٹرمپ نے 28 اگست کا انتخاب کیا۔ جس کے بعد ابتدائی عدالتی کارروائی تمام ہو گئی اور ٹرمپ اور ان کے وکلاءاور محکمہ انصاف کے اہلکار عدالت سے روانہ ہو گئے۔
ٹرمپ نے عدالت میں محکمہ انصاف کی طرف سے فرد جرم میں عائد کردہ تمام چاروں الزامات سے انکار کیا۔ قبل ازیں جج نے سابق صدر کو الزامات پڑھ کر سنائے اور قصوروار پائے جانے پر سزا کے بارے میں آگاہ کیا۔
مجسٹریٹ جج موکشیلا اپادھیائے نے سماعت کے دوران ٹرمپ کو بتایا کہ اس کیس کے ٹرائل کے دوران اگر وہ کسی جرم کے مرتکب ہوئے تو وہ جیل سے باہر نہیں رہ سکیں گے۔ اس کے جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں نتائج سے آگاہ ہیں۔
اس سے قبل ٹرمپ نیوجرسی سے ہوائی جہاز کے ذریعے دارالحکومت پہنچنے کے بعد موٹر کیڈ میں واشنگٹن ڈی سی کی گلیوں سے گزرتے ہوئے عدالت پہنچے جہاں ان پر عائد کی گئی فردجرم پر باقائدہ عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا۔
پینتالیس صفحات پر مشتمل فرد جرم میں ٹرمپ پر سال 2020 کے صدارتی انتخاب کے نتائج الٹانے کے لیے دھوکہ دہی سے کام لینے اور سرکاری عمل کو روکنے کی سازش کے الزاما ت لگائےگئے ہیں۔ پراسیکیوٹرز کی جانب سے اسپیشل کونسل جیک اسمتھ کمرہ عدالت میں موجودتھے۔
کمرہ عدالت میں چھ جنوری 2021 کو پرتشدد حملے کے خلاف امریکی کیپیٹل کا دفاع کرنے والے تین پولیس افسران بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی پیشی کے وقت موجود تھے۔ ان میں سے دو پولیس افسران ڈینیئل ہوجز اور ایکولینو گونیل اس روز ہونے والے فساد کے دوران زخمی ہوئے تھے جبکہ تیسرے افسر ہیری ڈن کا پرتشدد مظاہرین نے پیچھا کیا تھا۔
نیلے سوٹ میں ملبوس اور سر خ رنگ کی ٹائی لگائے ٹرمپ نے سماعت شروع ہونے سے قبل کمرہ عدالت میں اپنے وکلا سے بات کی۔ اس موقعے پر عدالتی کارروائی کی کوریج کرنے والی وی او اے کی ٹیم کے مطابق ٹرمپ نے کہا " یہاں بہت خاموشی" ہے۔
کمرہ عدالت کے قریب مظاہرین جمع تھے جن میں سے بعض نے ٹرمپ پر الیکشن نتائج تبدیل کرنے کے الزامات میں سزا کے حق میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے ۔ دوسری طرف ٹرمپ کے حامی ان کے لیے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
خیال رہے کہ ٹرمپ کسی بنیاد کے بغیر یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ 2020 کا الیکشن ان سے چرایا گیا تھا جبکہ وفاقی وکیل استغاثہ کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس یہ ٹرمپ تھے جنہوں نے اس انتخاب کو چوری کرنے کی کوشش کی۔
فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ نے مایوسی کی حالت میں امریکی صدارت پر فائز رہنے کی کوشش کی جبکہ انہیں معلوم تھا کہ امریکی ووٹروں نے ان سے یہ حق چھین لیا تھا۔
محکمہ انصاف کی طرف سے عائد کردہ فرد جرم میں ٹرمپ پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے موجودہ صدر جو بائیڈن سے صدارتی الیکشن میں اپنی شکست کو الٹانے کی کوششش میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرنے اور جھوٹ پھیلانے کی سازش کی۔
اسپیشل کونسل جیک اسمتھ کی طرف سے عائد کیے گئے فوجداری الزامات وائٹ ہاؤس کے وکلا اور ٹرمپ کے ان قریبی ساتھیوں کے بیانات پر مبنی ہیں جنہوں نے سابق صدر پر واضح کیا تھا کہ الیکشن میں کوئی فراڈ نہیں ہوا تھا۔
یہ تیسرا موقع ہے کہ ٹرمپ پر ، جو 2024 کے صدارتی انتخابات میں ری پبلکنز کے نمایاں امیدوار ہیں، ایک سال کے اندر جرائم کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ سابق صدر کو الیکشن میں شکست اور چھ جنوری 2021 کو کیپیٹل پرہونے والے حملے کے دوران افرا تفری کے عالم میں اقتدار میں رہنے کی کوشش کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ٹرمپ پرالزامات ہیں کیا؟
ٹرمپ پر چار الزامات عائد کیےگئے ہیں جن میں سرکاری عمل میں رکاوٹ ڈالنا، سرکاری کام کو روکنے کی سازش کرنا، امریکہ کو دھوکہ دینے اور دوسروں کو ان کی آئینی ذمہ داریاں انجام دینے سے روکنے کی سازش کرنا شامل ہیں۔
امریکی قانون کے مطابق سرکاری عمل کی راہ میں رکاوٹ کی سزا بیس سال کی قید ہے۔ ٹرمپ پر عائد الزامات میں سرکاری کارروائی سے مراد چھ جنوری 2021 کو امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں الیکٹورل ووٹوں کی گنتی کے ذریعےالیکشن میں جو بائیڈن کی جیت کی توثیق کرنا ہے۔
سرکاری کام کو روکنے کی سازش کی سزا بھی بیس سال قید ہے۔
خیال رہے کہ چھ جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل پر چڑھائی میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند گروپوں "اوتھ کیپرز" اور "پراؤڈ بوائز" کے اراکین سمیت ایک ہزار افراد پر الزامات لگائے گئے ہیں جن میں ایک سو افراد کو یا تو سزا سنادی گئی ہے اور یا انہوں نے اقبال جرم کرلیا ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کے مطابق امریکہ کے خلاف دھوکہ دہی ، چال یا فریب سے یا بے ایمانی کے ذریعہ فراڈ کرنے کی سزا پانچ سال قید ہے۔ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے بے ایمانی، فراڈ اور دھوکہ دہی کے ذریعہ انتخابات کے نتائج کی گنتی اور ان کی توثیق کے عمل کی راہ میں خلل ڈالا۔
فرد جرم کے مطابق ٹرمپ نے 2020 کے انتخابات کے بعد ہفتوں ریاستی قانون سازوں اور الیکشن حکام پر دباو ڈالا کہ وہ بائیڈن کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کو ان کے حق میں تبدیل کردیں اور پھر ٹرمپ کی حامی ریاستوں سے تبدیل شدہ نتائج کا ریکارڈ کانگریس کو بھیجیں۔
فردِ جرم کے مطابق ٹرمپ اور ان کے ا تحادیوں نے محکمہ انصاف کو استعمال کرنے کی کوشش کی کہ محکمہ الیکشن فراڈ میں نقلی تحقیقات کرے تاکہ سابق صدر کی جعلی "الیکٹرز اسکیم" مضبوط ہو سکے۔
فردِ جرم کے مطابق جیسے جیسے چھ جنوری 2021 کا دن قریب آرہا تھا ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں نے سابق نائب صدر مائیک پنس پردباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ وہ "بعض الیکٹورل" ووٹوں کو مسترد کردیں۔ لیکن جب یہ اسکیم ناکام ہوگئی تو ٹرمپ نے اپنے اتحادیوں کو کیپیٹل ہل کی جانب جانے کے لیے کہاتا کہ وہ کانگریس کے توثیق کے عمل میں رکاوٹ ڈال سکیں۔
فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں نے کیپیٹل ہل پر ٹرمپ کے حامیوں کے حملے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکشن کے متعلق جھوٹی باتوں کو پھیلانے اور اراکین کانگریس کو بائیڈن کی انتخابی فتح کو التوا میں ڈالنے کی کوششیں تیز تر کردیں۔
استغاثہ کی طرف سے عائد فرد جرم کے الفاظ میں ٹرمپ کی جانب سے ہر سازش مدعا علیہ کی عدم استحکام پیدا کرنے والے جھوٹ پر مبنی تھی جس کے ذریعہ وہ بد اعتمادی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ان ساری باتوں نے امریکی حکومت کے اس اہم ترین کام کے انجام دینے کو نشانہ بنایا جس کا مقصد صدارتی انتخاب کے نتائج جمع کرنا، ان کا شمار کرنا اور ان کی توثیق کرنا تھا۔
ٹرمپ کا موقف
ٹرمپ نے ، جو کہ 2024 میں ری پبلکن صدارتی نامزدگی کے اہم امید وار ہیں، ایک بیان میں خود پر الزام لگانے کے فیصلے کو "انتخابی مداخلت" کے طور بیان کرتے ہوئے اپنے خلاف الزامات کو "جعلی" قرار دیا۔
ان کےبیان میں کہا گیا ہے کہ "صدر ٹرمپ اور ان کے حامیوں کے خلاف ظلم و ستم کی لاقانونیت 1930 کی دہائی میں نازی جرمنی، سابق سوویت یونین اور دیگر آمرانہ حکومتوں کی یاد دلا رہی ہے۔"
بیان کے مطابق، "صدر ٹرمپ نے بہت سے اعلیٰ ماہر وکلاء کے مشورے کے ساتھ ہمیشہ قانون اور آئین کی پیروی کی ہے۔"
ٹرمپ کے اتحادی ان کے خلاف عدالتی مقدمات کے باوجود اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس سال کے شروع میں نیویارک میں ٹرمپ پر پہلی فرد جرم عائد ہونے کے بعد سے ری پبلکن ووٹرز کا ان پر اعتماد بڑھ گیا ہے۔
ری پبلکن رہنماؤں کی اکثریت نےجن میں ان کے مقابل صدارتی امیدوار بھی شامل ہیں، یا تو سابق صدر کا دفاع کیا ہے یا براہ راست ان پر تنقید سے گریز کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ محکمہ انصاف کو صدر کے سیاسی حریف کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ ٹرمپ نے اس سے پہلے کے مقدمات میں ان پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کردیا تھا۔
کیا ٹرمپ کے علاوہ کسی اور پر بھی الزام لگایا گیا ہے؟
ٹرمپ اس فرد جرم میں واحد مدعا علیہ ہیں اگرچہ اس مقدمے میں، سازش میں شریک چھ مزید شخصیات کا ذکر ہے۔ چھ افراد کے نام واضح طور پر نہیں بتائے گئے لیکن فرد جرم میں ایسی تفصیلات شامل ہیں جن سے ان میں سے کچھ کی شناخت ممکن ہو جاتی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ ان چھ افراد پر فردِ جرم کیوں عائد نہیں کی گئی یا انہیں بعد کی تاریخ میں فرد جرم میں شامل کیا جائے گا۔
ٹرمپ نے کہا تھا، " مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں ایک ایسے الیکشن کے خلاف احتجاج کروں جس کے بارے میں مجھے پورا یقین تھا کہ اس میں دھاندلی ہوئی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے 2016 میں ڈیموکریٹس میرے خلاف گئے اور عشروں سے بہت سے دیگر لوگ بھی ایسا کرتے رہے۔"
(اس تحریر میں شامل مواد اے پی، رائٹرز اور وی او اے کی اپنی خبروں سے لیا گیا ہے۔)
فورم