امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے دوسری مدت کے لیے 2024 کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔ اس سے قبل وہ تین بار صدارتی دوڑ کا حصہ بنے اور 2020 میں امریکہ کے 46 ویں صدر منتخب ہونے میں کام یاب رہے۔
صدر بائیڈن کی عمر 80 برس ہے اور امریکی کی سیاست میں وہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے سرگرم ہیں۔ وہ سینیٹر اور پھر آٹھ سال تک سابق صدر براک اوباما کے ساتھ بطور نائب صدر کام کر چکے ہیں۔ صدر بائیڈن نے جب 20 جنوری 2021 کو صدارت کا حلف اٹھایا تھا ان کی عمر 78 برس تھی۔ وہ امریکہ کی تاریخ کے معمر ترین صدر ہیں۔
صدر جو بائیڈن کو 2021 میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی حکمت عملی پر تنقید کا سامنا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ری پبلکن پارٹی ان کی امیگریشن اور معاشی پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔
سال 2024 کے صدارتی انتخاب کے لیے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نکی ہیلی سمیت کئی اہم امیدوار ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ کے امیدوار ہیں جن میں سے پرائمری میں کامیاب ہونے والا امیدوار 2024 کے انتخاب میں صدر بائیڈن کا مقابلہ کرے گا۔ ان امیدواروں کے بارے میں جانیے اس رپورٹ میں۔
ڈونلڈ ٹرمپ
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر 2022 میں صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کردیا تھا۔ 76 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ 2016 میں ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی اُمیدوار ہیلری کلنٹن کو شکست دینے کے بعد امریکہ کے صدر بنے تھےجس کے بعد 2020 کے صدارتی انتخاب میں انہیں ڈیموکریٹک پارٹی کے جو بائیڈن سے شکست ہوئی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی کریئر کئی تنازعات کا شکار رہا ہے۔ حال ہی میں پورن اسٹار اسٹارمی ڈینیئلز کو اپنے ساتھ مراسم پر خاموش رہنے کے لیے مبینہ طور پر رقم کی ادائیگی کے معاملے میں ٹرمپ پر نیویارک کی ایک عدالت سے فرد جرم عائد ہوچکی ہے۔ وہ پہلے سابق امریکی صدر ہیں جنھیں فوج داری فردِ جرم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس سے قبل انہیں 2020 کے صدارتی انتخاب کے نتائج میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق فردِ جرم عائد ہونے کے بعد بھی رائے عامہ کے جائزوں میں ٹرمپ کی پوزیشن مستحکم ہے اور ان کے حامیوں کی بڑی تعداد ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ البتہ امریکہ کے وسط مدتی انتخابات میں ان کے حمایت یافتہ انتہائی دائیں بازو کے امیدواروں کی شکست کی وجہ سے انہیں ری پبلکن پارٹی کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔
نکی ہیلی
امریکی ریاست ساؤتھ کیرولائنا کی سابق گورنر اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اقوامِ متحدہ کے لیے امریکہ کی سفیر رہنے والی نکی ہیلی نے رواں برس فروری میں صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ 51 سالہ نکی ہیلی دو بھارتی تارکین وطن کی بیٹی ہیں۔
نکی ہیلی نے نسلی اور صنفی امتیاز جیسے موضوعات پر اپنے مؤقف کی وجہ سے ری پبلکن پارٹی کے قدامت پسند حلقوں میں تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے۔ وہ خود کو دنیا بھر میں امریکی مفادات کے تحفظ کے علمبردار کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق نکی ہیلی کو تین فی صدر ری پبلکن ووٹرز کی حمایت حاصل ہے۔
ایسا ہچنسن
ریاست آرکنسا کے سابق گورنر ایسا ہچنسن کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے اور انہوں نے رواں ماہ صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ 72 سالہ ایسا ہچنسن کا کہنا ہے کہ فردِ جرم کی کارروائی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی امیدوار بننے کے بجائے قانونی مسائل سے نمٹنا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ قدامت پرست ریاست سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان تمام ایشوز پر بہتر پالیسیز بنا سکتے ہیں جنھیں ری پبلکن پارٹی اہمیت دیتی ہے۔ صدراتی الیکشن میں شریک ہونے کا اعلان کرنے کے بعد بھی ایسا ہچنسن اپنی ریاست کے باہر زیادہ معروف نہیں ہیں۔
وویک راما سوامی
بائیوٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے وویک راما سوامی نے فروری میں صدارتی دوڑ میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔ 37 سالہ راما سوامی نے 2022 میں کمپنیوں پر سماجی اور کارپوریٹ گورنرز انیشیٹیو سے علیحدہ ہونے کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر ایک فرم کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ وہ ری پبلکن پارٹی سے نامزدگی حاصل کرنے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔
ڈیموکریٹک امیدوار
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے رابرٹ کینیڈی جونیئر بھی صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کرچکے ہیں۔ ان کا تعلق امریکی سیاست کے معروف کینیڈی خاندان سے ہے۔ وہ امریکہ کے سابق صدر جان ایف کینیڈی کے بھتیجے اور سابق سینیٹر رابرٹ ایف کینیڈی کے بیٹے ہیں۔ ان کے چچا صدر کینیڈی 1961 میں اپنے دورِ صدارت میں قتل ہوگئے تھے اور ان کے والد کو 1968 میں انتخابی مہم کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔
رابرٹ کینڈی ویکسین کے مخالف ہیں اور کرونا وبا کے دوران ویکسین سے متعلق غلط معلومات پھیلانے کی وجہ سے ان پر یوٹیوب اور انسٹاگرام پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
اس کے علاوہ سیلف ہیلپ گرو اور مصنف ماریان ولیمسن نے بھی دوسری بار صدراتی دوڑ میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔ وہ اس سے قبل 2020 میں ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کرچکی ہیں لیکن انہیں پارٹی میں حمایت حاصل نہیں ہوسکی تھی۔ انہوں نے رواں برس مارچ میں اپنی مہم کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔
ممکنہ امیدوار
اس کے علاوہ ایسے کئی نام ہیں جنھوں نے تاحال اپنے امیدوار ہونے کا اعلان تو نہیں کیا ہے تاہم ان کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ وہ 2024 کی صدارتی الیکشن میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار بننے کی دوڑ میں شامل ہوسکتے ہیں۔
ان میں فلوریڈا کے گورنر رون ڈیسینٹس شامل ہیں۔ انہیں صدر ٹرمپ کے بعد ری پبلکن پارٹی میں سب سے مقبول رہنما سمجھا جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے نائب صدر رہنے والے مائیک پینس نے بظاہر ٹرمپ سے اپنی راہیں جدا کرلی ہیں۔ وہ اپنے ایک بیان میں کیپٹل ہل پر ہونے والے حملوں سے متعلق کہہ چکے ہیں کہ تاریخ اس کے لیے ٹرمپ کو جواب دہ ٹھہرائے گی۔
اپنے ایک انٹرویو میں وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ابھی صدارتی الیکشن کے لیے ری پبلکن پارٹی سے نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہونے پر غور کررہے ہیں۔
اسی طرح نیو جرزی کے سابق گورنر اور ٹرمپ کے حامی رہنے والے کرسٹ کرسٹی، واحد سیاہ فام ری پبلکن سینیٹر ٹم اسکاٹ، نیو ہیمپشر کے گورنر کرس سونونو بھی ممکنہ طور پر صدارتی انتخاب کے لیے ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں۔
اس تحریر کے لیے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔