صدر کے طور پر پہلی بار، ڈونالڈ ٹرمپ نے 11 ستمبر 2001میں نیو یارک اور واشنگٹن پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کی یاد منانے کے سلسلے میں قوم کی قیادت کی۔
امریکی سرزمین پر ہونے والی بدترین دہشت گردی کی 16 ویں برسی کی یاد میں وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں ٹرمپ شریک ہوئے، جس میں 8 بج کر 40 منٹ پر چند لمحوں کے لیے خاموشی اختیار کی گئی، جب القاعدہ کے دہشت گردوں کا ہائیجک کردہ پہلا مسافر طیارہ نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرایا۔ 23 منٹ بعد، دوسرا جیٹ طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر دوئم سے ٹکرایا، جس کے بعد بلند و بالا عمارتوں میں شعلے اور دھواں بھڑک اٹھا اور یہ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔
نیو یارک میں، چند لمحات کی خاموشی کے بعد ہلاک شدگان کے نام پڑھے گئے۔
ٹرمپ نے پینٹاگان میں حملوں کی یاد میں منعقدہ تقریب میں بھی شرکت کی، جسے اغوا کیے گئےچار کمرشل جیٹ طیاروں میں سے ایک نے شدید نقصان پہنچایا۔ پینٹاگان کے سامنے منعقدہ تقریب میں ٹرمپ نے کہا کہ ’’اُس سیاہ دِن کی دہشت گردی اور برہمی ہماری یادداشت کا ایک مستقل حصہ بن چکی ہے‘‘۔
ہلاک شدگان کا حوالہ دیتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہم اُن کے لیے تعزیت کرتے ہیں، ہم اُنھیں عزت کی نگاہ سے یاد کرتے ہیں، ہم اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اُنھیں کبھی بھی نہیں بھلائیں گے‘‘۔
وزیر دفاع جِم میٹس نے کہا ہے کہ 2001ء کے حملوں کے بعد ’’ہماری قوم مضبوطی سے یک جان ہو کر کھڑی ہوگئی۔ بہادری اور ہمدردی کے مثالی جذبات دیکھے گئے‘‘۔
نائب صدر مائیک پینس پنسلوانیا کے شہر شینکس ویل گئے جہاں ہائی جیک ہونے والا دوسرا طیارہ گر کر تباہ ہوا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ جب مسافروں نے محسوس کیا کہ چاقو بردار دہشت گردحملے کی غرض سے جہاز کو واشنگٹن لے جانا چاہتے ہیں، جس کا ہدف ایوانِ نمائندگان کی عمارت یا وائٹ ہاؤس ہو سکتا ہے، تو مسافر طیارے کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، جب کہ ہائی جیکروں نے جہاز حوالے کرنے کے بجائے اسے گرا کر تباہ کر دیا۔
گیار ستمبر 2001ء کو ہائی جیک ہونے والے چاروں طیاروں میں سوار تمام لوگ ہلاک ہوئے۔ نیو یارک شہر میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے علاوہ پینٹاگان پر حملے کے نتیجے میں بھی کافی جانی نقصان واقع ہوا۔ حملوں کے وجہ سے تقریباً کُل 3000 افراد ہلاک ہوئے۔
خالد شیخ محمد کے بارے میں امریکی تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ یہ اسلام نواز شدت پسند سنہ 2001 کے دہشت گرد حملوں کا ’’خاص سرغنہ‘‘ تھا جسے 2003 میں پاکستان سے گرفتار کیا گیا، اور کیوبا میں واقع گوانتانامو بے کے امریکی فوجی قید خانے میں بند رکھا گیا۔
گیارہ ستمبر کی منصوبہ سازی اور پیشگی منظوری، القاعدہ کے راہنما اسامہ بن لادن نے دی تھی، جسے مئی 2011 میں امریکی کمانڈوز نے کارروائی کرکے موت کے گھاٹ اتارا، جب پاکستان میں واقع ایک عمارت کے احاطے پر چھاپہ مارا گیا، جہاں وہ چھپا ہوا تھا۔
ادھر، اپنے بیان میں امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے کہا ہے کہ امریکہ 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والوں کو یاد کرتا ہے، جب کہ اُن دلیروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جنھوں نے دلیری سے لڑتے ہوئے کئی جانیں بچائیں، یہاں تک کہ اُنھوں نے اپنی جانیں تک نثار کر دیں۔
گیارہ ستمبر کے دہشت گرد حملوں کی برسی کے موقع پر، اُنھوں نے کہا ہے کہ امریکی قوم کی دلیری کی رقم کردہ مثالیں شیطانی عمل کا سامنا کرنےکے دوران حوصلہ مندی کی علامت بن چکی ہیں۔
بقول اُن کے، ’’حالانکہ اُس روز ہمارا ملک زخمی ہوا، آج ہم دنیا کو یہ بات یاد دلانا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کے ہتھکنڈوں سے امریکہ کو کبھی شکست نہیں دی جا سکتی‘‘۔