امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز دی ہے کہ اسکولوں کے جو اساتذہ اسلحہ لینا چاہتے ہیں انہیں اس کی اجازت دے دینی چاہیے تاکہ امریکی اسکولوں میں ہونے والی فائرنگ کے واقعات کا توڑ کیا جاسکے۔
امریکی صدر نے جمعرات کو مسلسل دوسرے روز بھی امریکی اسکولوں میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعات سے متعلق اجلاس میں گزارا۔
بدھ کو صدر نے گزشتہ ہفتے فلوریڈا میں پیش آنے والی اسکول شوٹنگ اور اس سے قبل امریکہ کے مختلف اسکولوں میں ہونے والے ایسے ہی واقعات میں مرنے والوں کے لواحقین، زندہ بچ جانے والوں، اساتذہ اور انتظامی اہلکاروں سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے اسکولوں میں حفاظتی انتظامات بہتر بنانے سے متعلق ان افراد کی رائے جانی تھی۔
جمعرات کو صدر نے وائٹ ہاؤس میں ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں ان کی کابینہ کے ارکان، ریاستی اور مقامی حکام کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندے بھی شریک تھے۔ اجلاس میں امریکی اسکولوں میں حفاظتی انتظامات بہتر بنانے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکی اسکولوں کی 40 فی صد جماعتوں میں ایسے اساتذہ رکھے جاسکتے ہیں جو اسلحہ چلانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
انہوں نے یہ عندیہ بھی دیا کہ ہتھیار چلانے کی صلاحیت کے حامل اساتذہ کو کچھ اضافی مراعات بھی دی جاسکتی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکی اسکولوں کو اتنا ہی محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں جتنا امریکی بینک محفوظ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم جارحانہ حکمتِ عملی نہیں بنائیں گے اس وقت تک ایسے واقعات پیش آتے رہیں گے۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کے دوران وائس آف امریکہ کے نمائندے کے اس سوال پر کہ بعض اساتذہ کمرۂ جماعت میں اسلحے کی موجودگی کے مخالف ہیں، صدر ٹرمپ نے کہا کہ درحقیقت یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اسلحے کی زیادہ ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ شرح کے اعتبار سے بہت کم اساتذہ کو اسلحہ دینے کی حمایت کر رہے ہیں لیکن تعداد کے اعتبار سے یہ لوگ زیادہ ہوں گے۔
امریکی صدر کا مؤقف تھا کہ اگر ایسا ہوگیا تو لوگ دیکھیں گے کہ اسکولوں میں فائرنگ کی یہ ہولناک وبا فوراً ہی رک جائے گی۔
امریکی صدر نے حالیہ اجلاس گزشتہ ہفتے ریاست فلوریڈا کے علاقے پارک لینڈ کے ایک ہائی اسکول میں پیش آنے والے واقعے کے بعد کیے ہیں جن میں اسکول کے ایک سابق طالبِ علم کی فائرنگ سے 17 افراد مارے گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد امریکہ میں تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات پر فائرنگ کے واقعات پر بحث ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے اور کئی حلقے حکومت سے گن کنٹرول سے متعلق مؤثر اقدامات متعارف کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس مسئلے پر گزشتہ دو روز سے جاری غور وخوض کے دوران اسلحہ بنانے والوں اور رکھنے والوں کی نمائندہ انجمن 'نیشنل رائفل ایسوسی ایشن' (این آر اے) کے حکام سے بھی بات کی ہے اور صدر کے بقول وہ بھی اس بارے میں "اقدامات کرنے" پر تیار ہیں۔
'این آر اے' کا شمار امریکہ کی طاقت ور اور بااثر ترین انجمنوں اور لابنگ گروہوں میں ہوتا ہے جو ماضی میں گن کنٹرول سے متعلق کسی بھی مجوزہ قانون سازی کی سخت مخالفت کرتی رہی ہے۔
پچاس لاکھ ارکان پر مشتمل 'این آر اے' نے 2016ء کے صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کو بھی بھاری عطیات دیے تھے۔
صدر ٹرمپ یہ واضح کرچکے ہیں کہ ان کا 'این آر اے' سے محاذ آرائی کا کوئی ارادہ نہیں کیوں کہ ان کے بقول "وہ اچھے لوگ ہیں۔"
جمعرات کو ہونے والے اجلاس کے دوران صدر ٹرمپ نے تعلیمی اداروں کے ارد گرد "گن فری زون" کے قیام کی تجویز کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اس سے حملہ آوروں کی اور حوصلہ افزائی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ بچے ویڈیو گیمز اور فلموں میں دکھائے جانے والے تشدد کا بھی اثر قبول کر رہے ہیں اور اس بارے میں بھی کچھ کرنا ہوگا۔