ڈونلڈ ٹرمپ کے قانونی ماہرین سابق امریکی صدر کے خلاف حال ہی میں شروع کیے گيے 2020 کے الیکشن سازش مقدمے کو واشنگٹن ڈی سی سے باہر متنقل کرنا چاہتے ہیں لیکن ماہرین کے مطابق یہ ثابت کرنا ایک چیلنج ہے کہ کسی ری پبلیکن کا اپنی مخالف پارٹی ڈیموکریٹس کےگڑھ دارالحکومت میں منصفانہ ٹرائل نہیں ہو سکتا ۔
فوجداری مقدموں میں دفاع کے وکلا عام طور پر یہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے موکل کے لیے موزوں جیوری حاصل کرنے کی خاطر مقدمہ کسی اور جگہ منتقل کروایا جائے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ پر عائد فرد جرم کے مطابق الزام ہے کہ انہوں نے سال 2020 کے انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے سازش کی اور موجودہ صدر جو بائیڈن کی اس الیکشن میں کامیابی کی کانگریس سے توثیق کے عمل میں خلل ڈالا۔ ٹرمپ پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے صدارتی انتخابات کے نتائج کو الٹنے کے لیےاپنے حامیوں کو چھ جنوری کے کانگریسی توثیقی عمل کے دوران کیپیٹل ہل پر حملہ کرنے پر اکسایا۔
ٹرمپ اور ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ مقدمے کو ریاست ویسٹ ورجینیا لے جانا چاہتے ہیں ۔ اس ریاست میں ٹرمپ نے سال 2020 کے صدارتی الیکشن میں باآسانی کامیابی حاصل کی تھی۔
لیکن ماہرین کے مطابق اس بات کو ثابت کرنا ایک دشوار کام ہے کہ کسی خاص مقدمے میں جیوری اس قدر متعصب ہے کہ مقدمے کی کارروائی کو منتقل کرنا ضروری بن گیاہے۔
امریکہ کی حالیہ تاریخ میں بڑے بڑے مقدمات کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔
دونوں پارٹیوں یعنی ڈیموکریٹک اور ری پبلیکن صدور کے واشنگٹن کی وفاقی عدالتوں میں مقررکردہ ججوں نے، جن میں ٹرمپ کے ٹرائل کی صدارت کرنے والے جج بھی شامل ہیں، بارہا ایسی کوششوں کو مسترد کیا ہے۔ اس طرح کی کوششیں چھ جنوری 2021 کو امریکی کیپیٹل ہل پر حملے میں ملوث ایک ہزار سے زیادہ ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے کی گئیں۔
اس سلسلے میں ٹرمپ کے مقدمے کی نگرانی کرنے والی یو ایس ڈسٹرکٹ جج ٹانیہ چٹکن نے چھ جنوری کے ایک ملزم کی مقدمے کو منتقل کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے تحریر کیا تھا کہ سیاسی وابستگی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ کوئی جج عدالت میں پیش کی گئی شہادت کا جائزہ نہیں لے گا اور وہ عدالتی قوائد کے مطابق قانون کے مطابق کارروائی نہیں کرے گا۔
دریں اثنا، ٹرمپ نے محکمہ انصاف کی جانب سے ان کے خلاف پیروی کرنے والے خصوصی وکیل جیک اسمتھ کے خلاف اپنی تنقید کا سلسلہ جاری رکھا ہو اے۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ وکیل اسغاثہ کی عدالت سے معلومات کے تحفظ کی استدعا کے باوجود اپنے خلاف مقدمے پر کھلم کھلا بات کرتے رہیں گے۔
ریاست نیو ہیمپشائر میں ٹرمپ نے جیک اسمتھ کو ٹھگ پراسیکیوٹر" اور ذہنی طور پر غیرمتوازن قرار دیتے ہوئےان پر تنقید کی۔
خیال رہے کہ محکمہ انصاف نے ٹرمپ کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے جج سے درخواست کی ہے کہ وہ کارروائی کے دوران پیش کی جانے والی شہادتوں اور ثبوتوں کے بارے میں ایک قبل از وقت تحفظ نامہ جاری کریں تاکہ ٹرمپ ان معلومات کے بارے میں سرعام بات نہ کرسکیں۔ وفاقی جج جمعہ کو اس درخواست پر غور کریں گے۔
ٹرمپ نے جج ٹانیا چٹکن کو بھی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں تنقید کا نشانہ بنایا۔
وفاقی وکلا کا کہنا ہےکہ ٹرمپ عدالت کی بجائے میڈیا میں اس مقدمے کو چلانا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف، ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن سازش کیس میں معاون ، قانونی مشیروں نے اعتراض کیا ہے کہ وفاقی وکلا جس عدالتی تحفظ نامے کی استدعا کر رہے ہیں وہ بہت وسیع ہے اور اس کے نفاذ سے ٹرمپ کی امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت ان کی آزادی رائے کا حق متاثر ہوگا۔
خیال رہے کہ ٹرمپ اگلے سال کے صدارتی انتخابات کے لیے اب تک کے ری پبلیکن پارٹی کے امیدواروں میں سب سے آگے ہیں۔
ان کےوکلا نے عدالت میں پیش کی گئی دستاویز میں کہا کہ جج ایک ایسا حکم نامہ جاری کریں جو صرف حساس سمجھے جانے والی معلومات جیسے کہ گرینڈ جیوری کے مواد وغیرہ پر لاگو ہو نہ کہ ان تمام معلومات پر جو وکیل استغاثہ ٹرمپ کے سال 2020 کے الیکشن کے بارے میں سازش میں ملوث ہونے کے لیے پیش کریں۔
اے پی کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اسپیشل کونس جیک اسمتھ کی ٹیم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ٹرمپ کے اکاونٹ کے لیے جنوری میں سرچ وارنٹ حاصل کیے تھے۔ ایک جج نے ٹوئٹر پر مقررہ وقت تک ریکارڈ دستیاب نہ کرنے پر تین لاکھ پچاس ہزار ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔
اسمتھ کی ٹیم نے بارہا ٹرمپ کے خلاف فرد جرم میں لگائے گئے الزامات میں ان کی ٹوئٹس کا حوالہ دیا تھا جس میں انہوں نے مبینہ طور پر سال 2020 کے الیکشن کے نتایج الٹنے کے لیے سازش کی تھی۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے خود پر عائد کردہ الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
(اس خبر میں شامل مواد خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔)
فورم