امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہانگ کانگ میں جاری مظاہروں کے خلاف تیاننمن اسکوائر طرز کی کارروائی سے گریز کرے۔ بصورت دیگر اس اقدام سے چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ 1989 میں چین کے دارالحکومت بیجنگ کے تیاننمن اسکوائر میں جمہوریت نواز قوتوں کے ہزاروں کارکن سراپا احتجاج تھے۔ چار جون 1989 کو سیکورٹی فورسز نے مظاہرین پر دھاوا بول دیا جس سے کم سے کم ایک ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اتوار کو نیو جرسی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ "اگر چین نے ہانگ کانگ مظاہرین کے خلاف تیاننمن اسکوائر کی طرز پر پرتشدد کارروائی کی تو ہمارے لیے تجارتی معاہدہ کرنا بہت مشکل ہو گا۔"
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ امید رکھتے ہیں کہ صدر شی جن پنگ اختلاف رائے رکھنے والوں کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔
صدر ٹرمپ کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ اور چین کسی قابل عمل تجارتی معاہدے کے لیے کوشاں ہیں۔ تجارتی معاہدے کے لیے مذاکرات کے متعدد دور بے نتیجہ رہے ہیں۔
امریکی صدر کے معاشی مشیر لیری کیدلو کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے نمائندوں نے تجارتی مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے بذریعہ ٹیلی فون دس روز تک رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا ہے۔ ان کے بقول اگر یہ رابطے کامیاب ہوئے تو بہت جلد اعلٰی سطحی مذاکراتی وفود ملاقات کریں گے۔
ہانگ کانگ میں گزشتہ دو ماہ سے حکومت مخالف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ منتظمین کے مطابق اتوار کو لگ بھگ 17 لاکھ افراد نے بیجنگ کی وارننگ کے باوجود ہانگ کانگ کی سڑکوں پر پرامن مارچ کیا۔
گزشتہ ہفتے مظاہرین ہانگ کانگ کے مرکزی ایئر پورٹ تک بھی پہنچ گئے تھے جہاں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔
چین میں کمیونسٹ پارٹی سے اختلاف رکھنے والے عناصر کے خلاف کارروائیوں کی شکایات عام ہیں۔ سرکاری ٹی وی کے مطابق نیم خود مختار ہانگ کانگ سے ملحقہ علاقے شینزن میں فوج اور مسلح افراد کی نقل و حمل دیکھی گئی ہے۔
ہانگ کانگ کو 1997 میں چین اور برطانیہ کے درمیان معاہدے کے بعد خود مختار حیثیت دی گئی تھی۔ ہانگ کانگ کے بعض طبقات وقتاً فوقتاً ان خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ صدر شی جن پنگ کی حکومت ان کی خودمختاری پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چین نے طاقت کے ذریعے ہانگ کانگ میں احتجاجی تحریک روکنے کی کوشش کی تو یہ تباہ کن ہو گا نہ صرف اس سے چین کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا بلکہ اس کا اثر چین کی معیشت پر بھی پڑے گا۔