چین کے سرکاری میڈیا میں سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق صدر شی جنپنگ نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بتایا کہ شمالی کوریا کے مسئلے کو پرامن طریقہ سے حل کیا جانا چاہیئے۔
ان رپورٹس کے مطابق امریکہ کی ریاست فلوریڈا میں ایک ہفتہ قبل ہونے والی بالمشافہ ملاقات کے بعد بدھ کو دونوں راہنماؤں نے فون پر گفتگو کی۔ وائٹ ہاؤس کا اس بات چیت سے متعلق ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
منگل کو صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹر بیان میں چین پر ایک بار پھر زور دیا کہ وہ شمالی کوریا کے معاملے کو حل کرنے میں اپنے کردار ادا کرے۔
ٹرمپ نے ٹوئیڑ میں لکھا "شمالی کوریا کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔۔۔اگر چین تعاون کرتا ہے تو یہ بہت اچھا ہو گا۔ اگر نہیں تو ہم یہ مسئلہ ان کے بغیر ہی حل کریں گے۔"
انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ امریکہ کیا اقدام اٹھا سکتا ہے۔ تاہم اس سے چند منٹ پہلے ایک اور ٹوئیٹر پیغام میں ٹرمپ نے شی جنپنگ سے کہا کہ چین کے لیے تجارتی معاہدے کی شرائط بہتر ہو سکتی ہیں" اگر وہ شمالی کوریا کے مسئلے کو حل کر دیں۔"
چین شمالی کوریا کی معاونت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز بیجنگ کو شمالی کوریا کا "اہم اتحادی، سب سے بڑا تجارتی شراکت دار، خوراک، اسلحہ اور توانائی (فراہم کرنا والا) " ملک قرار دیتا ہے۔
تاہم میزائل اور پانچ جوہری تجربات کی وجہ سے چین بھی شمالی کوریا ک سے خوش نہیں ہے۔ بعض مبصرین کے خیال میں شمالی کوریا چھٹے جوہری تجربے کی تیاری کر رہا ہے۔
ٹرمپ نے ہفتہ کو امریکی بحریہ کا لڑاکا طیارہ بردار جہاز شمالی بحرالکاہل میں شمالی کوریا کے قریب روانہ کیا تھا، جس کا مقصد شمالی کوریا کے راہنما کم جونگ ان کو ایک سخت پیغام دینا تھا۔
شمالی کوریا یہ کہہ چکا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ردعمل میں گزشتہ ہفتہ شام میں ہونے والے امریکہ کے میزائل حملے، پیانگ یانگ کو اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کو جواز فراہم کرتے ہیں کیونکہ ان کے ملک کو بھی اسی طرح کے امریکی حملے کا خطرہ ہے، جیسا کہ شام کے ہوائی اڈے پر کیا گیا۔