صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے خلاف ’’انتہائی دباؤ‘‘ جاری رکھنے کی مہم کو آزمائش کا سامنا ہے۔
ان کی انتظامیہ یہ فیصلہ کرنے والی ہے آیا سال 2015ء کے جوہری معاہدے کے باقی ماندہ حصے ختم کرکے بین الاقوامی تناؤ کا سبب بنا جائے۔
جمعرات کی حتمی تاریخ تک امریکہ کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا آیا ان غیرملکی کمپنیوں کے خلاف تعزیرات میں نرمی برتنے میں توسیع کی جائے یا اسے منسوخ کیا جائے، جنھیں معاہدے کے تحت ایران کے سویلین جوہری پروگرام کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ہے۔
استثنیٰ ختم کرنا اس مہم کا اگلا منطقی قدم ہوگا اور یہی وہ اقدام ہے جسے کانگریس میں ٹرمپ کے اتحادی ترجیح دیتے ہیں، جو ایران کے خلاف سخت انداز اپنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
لیکن، اس سے ایران اور چند یورپی اتحادیوں کے خلاف تناؤ کی صورت حال مزید بگاڑ آئے گا۔ دو اہلکاروں کا کہنا ہے کہ منقسم انتظامیہ عارضی طور پر نرمی میں توسیع دے سکتی ہے۔ ان اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جاری اندرونی سوچ بچار ظاہر کی۔
یہ امر کہ اس معاملے پر انتظامیہ منقسم ہے، اس اعلان کو پہلے ہی دو بار مؤخر کیا جا چکا ہے۔
اہلکاروں کے مطابق، یہ ایران کے بارے میں ان تازہ ترین مشکوک اشاروں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے نتیجے میں صدر کے حامی اور ناقدین شک و شبہے کا شکار ہیں آیا اسلامی جمہوریہ کے ساتھ تعطل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
کچھ حضرات کا یہ کہنا ہے کہ غیر واضح پیغامات کے نتیجے میں تنازع بھڑک سکتا ہے، ایسے میں جب خلیج فارس کے علاقے میں امریکی افواج کی نفری میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
’کارنیگی انڈوومنٹ‘ میں بین الاقوامی امن سے متعلق ماہر، کریم سجادپور نے کہا ہے کہ ’’جب ایک مربوط پالیسی موجود نہ ہو تو اس قسم کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے، چونکہ سازباز کرنے والے ایسا عمل کرسکتے ہیں، اور غیر واضح پیغامات نے خطرناک غلط اندازوں کے ماحول کو جنم دیتے ہیں‘‘۔
بقول ان کے، ’’ٹرمپ نے ایران کے ساتھ اشتعال اور تناؤ کا ماحول پیدا کیا ہے، اور ساتھ ہی کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ تنازع کے برخلاف ہیں‘‘۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو دباؤ کی مہم سے متعلق ابہام کو مسترد کرتے ہیں کہ امریکہ کی حکمت عملی واضح نہیں ہے۔
انھوں نے گذشتہ ہفتےکہا تھا کہ ’’امریکہ کے پاس حکمت عملی موجود ہے، جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ یہ کارگر ثابت ہوگی۔ ہم ایران کو اس دولت سے محروم کریں گے جس کی مدد سے وہ دنیا بھر میں دہشت گردی بڑھکاتا ہے اور اپنا نیوکلیئر پروگرام تشکیل دینے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے‘‘۔