رسائی کے لنکس

افغان طالبان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ


ٹی ٹی پی کے جنگجو، فائل فوٹو
ٹی ٹی پی کے جنگجو، فائل فوٹو

  • افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ
  • ٹی ٹی پی کو القاعدہ کے جنگجوؤں کی امداد حاصل ہے، ان کے کیمپس میں ٹریننگ ہو رہی ہے، رپورٹ میں دعویٰ
  • نیٹو کے معیار کے ہتھیار، خصوصاً رات کو دیکھنے کی صلاحیت والے ہتھیاروں سے ٹی ٹی پی کے حملے زیادہ مؤثر ہوئے ہیں، رپورٹ
  • ٹی ٹی پی پر دباؤ سے وہ داعش خراساں سے تعلقات بڑھا سکتے ہیں، افغان طالبان کا خدشہ، رپورٹ میں دعویٰ

افغان طالبان کی جانب سے سرحد پار پاکستان میں حملوں کے لیے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے، یہ دعویٰ اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی جانب سے یہ رپورٹ بدھ کے روز جاری کی گئی۔ ٹی ٹی پی کی حالیہ ہفتوں میں کارروائیوں کی وجہ سے سینکڑوں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں لکھا گیا کہ، ’’ٹی ٹی پی افغانستان میں بڑے پیمانے پر آپریٹ کرتی ہے اور وہاں سے پاکستان میں حملے کیے جا رہے ہیں جن میں اکثر افغان شہری بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔‘‘

رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا کہ بین الاقوامی طور پر دہشت گرد قرار دیے گئے اس گروپ کے افغانستان میں چھ سے ساڑھے چھ ہزار جنگجو موجود ہیں۔

اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خطرے کو ختم کرنے میں یا تو ناکامی نظر آتی ہے، یا ایسا کرنے میں کوئی ارادہ ظاہر نہیں ہوتا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کی حمایت میں اضافہ نظر آتا ہے۔

حالیہ ہفتوں میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافے سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر اثر پڑا ہے اور افغان طالبان دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کا انکار کرتے ہیں ساتھ ہی ان الزامات کی بھی تردید کرتے ہیں کہ ان کارروائیوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان ٹی ٹی پی کو دہشت گرد گروپ تسلیم نہیں کرتے، اور ان کے تعلقات قریبی ہیں اور افغان طالبان پر ٹی ٹی پی کی امداد کا قرض ہے۔

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے ارکان جن کے افغان طالبان کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان میں کارروائیوں کے لیے مدد فراہم کر رہے ہیں۔

طالبان کی جانب سے اس رپورٹ پر ابھی تک ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا لیکن وہ ماضی میں ایسی رپورٹوں کو مسترد کر چکے ہیں اور انہیں طالبان حکومت کو بدنام کرنے کی سازش اور پراپیگنڈے کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں رکن ممالک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے کارندوں کو مقامی جنگجوؤں کے ساتھ القاعدہ کے کیمپوں میں تربیت دی جا رہی ہے جو دہشت گرد تنظیم نے متعدد سرحدی صوبوں جیسے ننگرہار، قندھار، کنڑ اور نورستان میں قائم کیے ہیں۔ القاعدہ کی جانب سے ٹی ٹی پی کی حمایت میں افغان جنگجوؤں کو فوجی عملے یا حملے کی تشکیل کے لیے حاصل کرنا بھی شامل ہے۔

اقوام متحدہ کی رکن ریاستوں کی جانب سے دوبارہ کہا گیا ہے کہ نیٹو کے معیار کے ہتھیار، جن میں رات کو دیکھنے کی صلاحیت بھی شامل ہے طالبان کی حکومت آنے کے بعد ٹی ٹی پی کو فراہم کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے پاکستان کی سرحدی فوجی پوسٹس پر حملے زیادہ کامیاب ہوتے جا رہے ہیں۔

اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ایک رکن ملک کے خدشات کا ذکر کیا گیا کہ القاعدہ کی جانب سے ٹی ٹی پی کے لیے بڑھتی حمایت سے ٹی ٹی پی خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

پاکستان میں حکام یہ الزام لگاتے آ رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے حملوں میں بڑھتی ہلاکتوں کے پیچھے ان امریکی ہتھیاروں کا ہاتھ ہے جو بین الاقوامی فورسز کے انخلا کے بعد افغانستان میں رہ گئے تھے اور اب وہ ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔

امریکی محکمہ انصاف نے ان الزامات کے جواب میں مئی کی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستانی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز میں امریکی ہتھیار برآمد کیے ہیں، وہ ایم 4 اور ایم 6 رائفلز کی طرز کے چھوٹے ہتھیار ہیں۔ اور پاکستانی ذرائع کی جانب سے اس بارے مین بتائی گئی تفصیل بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی ہے۔

پاکستان کی جانب سے افغان طالبان پر مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی سرحد پار کارروائیوں کو روکے، اس کے رہنماؤں کو حراست میں لے اور پاکستان کے حوالے کرے۔ افغان طالبان کا ردعمل رہا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور افغان طالبان پر الزامات لگانے کی بجائے پاکستان کو ہی اسے حل کرنا چاہئے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، ٹی ٹی پی نے بتدریج پاکستان کے خلاف حملوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے 2021 میں کیے گئے 573 حملے 2023 میں بڑھ کر 1,203 ہوگئے، اور یہ رجحان 2024 تک جاری رہا۔

پاکستانی حکام کے مطابق تشدد میں اضافے کی وجہ "زیادہ آپریشنل آزادی" ہے جو تقریباً تین سال قبل طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دہشت گرد تنظیم کو افغانستان میں حاصل ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، طالبان کے ادارے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس نے، ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے لیے کابل میں تین نئے گیسٹ ہاؤسز کی سہولت فراہم کی اور مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کی سینئیر شخصیات کو نقل و حرکت میں آسانی اور گرفتاری سے استثنیٰ کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کے اجازت نامے جاری کیے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان کو خدشہ ہے کہ "زیادہ دباؤ" TTP کو افغانستان میں قائم اسلامک اسٹیٹ سے وابستہ تنظیم، IS خراسان کے ساتھ تعاون کا باعث بن سکتا ہے، جو معمول کے مطابق طالبان کی سیکورٹی فورسز اور افغان شیعہ اقلیت کے ارکان پر مہلک حملوں کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG