رسائی کے لنکس

ٹی ٹی پی کا مذاکرات کا معاملہ پارلیمان میں لانے کے اعلان پر اظہارِ افسوس، حملوں کی دھمکی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کے اس بیان پر افسوس کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ پارلیمان میں لانے کا اعلان کیا ہے۔

ٹی ٹی پی نے مذاکرات کے تعطل یا خاتمے پر پاکستان میں پر تشدد کاروائیاں دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ پاکستان کی حکومت یا فوج کی جانب سے ٹی ٹی پی کے اس بیان پر کسی قسم کا ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔

ٹی ٹی پی نے ایک بیان میں پاکستان کی حکومت اور فوج کے حوالے سے کہا ہے کہ جب بھی ان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کی گئی تو تحریکِ طالبان پاکستان کی قیادت نے اس کا مثبت جواب دیا ہے۔حالیہ مذاکرات بھی پاکستان کے مطالبے پر شروع کیے گئے ہیں۔ٹی ٹی پی نے خیر سگالی کے طور پر تین بار فائر بندی کی، جب کہ دوسری جانب سے مسلسل کارروائیاں جاری تھیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان کبھی بھی ایسے آئین کو تسلیم نہیں کرے گی، جس میں شریعت کے مطابق قانون سازی نہ ہو، بلکہ قانون سازی کے لیے انسانی رائے شماری سے گزرنا پڑے۔

بیان میں مذاکرات کے معطل یا ختم ہونے کی صورت میں پر تشدد کارروائیوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فوج اگر مذاکرات سے بھاگنا چاہتی ہے تو ٹی ٹی پی کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اس سے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو ملک بھر میں حملے کرنے کا موقع ملے گا، جو ہتھیار نہیں ڈالیں گے، بلکہ فوج اور سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنایا جائے گا۔

خیال رہے کہ دو دن قبل بدھ کو پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس وزیرِ اعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہوا تھا۔ اس اجلاس میں سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ عسکری رہنما بھی موجود تھے۔

کمیٹی کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات آئین کے دائرہ کار میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پارلیمان کو اعتماد میں لینے کے لیے اِن کیمرا اجلاس بلایا جائے گا، جس میں وزیراعظم پارلیمنٹ کے اراکین کو بریفنگ دیں گے۔

افغانستان میں اگست 2021 کے وسط میں طالبان کے برسرِ اقتدار میں آنے کے بعد ان کے توسط سے اکتوبر میں حکومتِ پاکستان اور تحریکِ طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے جس کے نتیجے میں یکم نومبر سے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔

بعد ازاں ٹی ٹی پی نے پاکستان پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے دسمبر 2021 کے اوائل سے جنگ بندی ختم کر دی، جس کے بعد خیبر پختونخوا سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات شروع ہو گئے۔

اپریل 2022 کے آخر میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنماؤں پر مشتمل جرگے کی کوشش سے فریقین میں مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے۔ بعد ازاں ٹی ٹی پی نے یکم مئی سے 10 دن کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا، جس میں 31 مئی تک دو بار توسیع کی گئی۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ جاری مذاکرات کو حتمی نتیجے تک پہنچانے کے لیے پشاور سے مختلف قبائل اور بعض سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل ایک اور جرگہ یکم جون کو کابل گیا۔

جرگے نے ٹی ٹی پی کے ساتھ دو دن تک مذاکرات کیے، جس کے نتیجے میں طالبان نے شرائط جرگے کے اراکین کے حوالے کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریکِ طالبان پاکستان نے جنگ بندی میں غیر معینہ مدت تک توسیع کا بھی اعلان کیا۔

ٹی ٹی پی کی مطالبات

تحریکِ طالبان پاکستان نے مندرجہ ذیل مطالبات جرگے کے حوالے کیے ہیں۔

- ٹی ٹی پی کے قید جنگجوؤں کی رہائی

- تحریکِ طالبان پاکستان کے رہنماؤں پر درج مقدمات کا خاتمہ

۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کی سابق حیثیت کی بحالی

- قبائلی علاقوں سے فوج کا مکمل انخلا

- افغانستان سے ملحقہ اضلاع میں مخصوص فری زونز کا قیام

ٹی ٹی پی کے ان مطالبات پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا لیکن پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ان دونوں جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کے حوالے سے پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے۔

XS
SM
MD
LG