بھارت کی اعلیٰ عدالت نے 2002 میں ہونے والے گجرات فسادات سے متعلق دائر درخواست خارج کرتے ہوئے موجودہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کو الزامات سے بری کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ کے سابق مرحوم رکن احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو کلین چٹ دینے والی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی رپورٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاتھا۔
ایس آئی ٹی نے گجرات فسادات سے متعلق اپنی حتمی رپورٹ میں نریندر مودی اور دیگر ملزمان پر عائد الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔
جمعے کو سپریم کورٹ کے جسٹس اے ایم کھانولکر، دنیش مہیشوری اور سی ٹی روی کمار پر مشتمل بینچ نے اس معاملے پر سماعت کے دوران یہ کہتے ہوئے درخواست مسترد کر دی کہ ملزمان پر عائد کردہ الزامات میں کوئی سچائی نہیں اور کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے۔
خیال رہے کہ 27 فروری 2002 کو ایودھیا سے لوٹنے والی سابر متی ایکسپریس کو گجرات کے گودھرا ریلوے اسٹیشن پہنچنے پر نذرِ آتش کر دیا گیا تھا جس میں 59 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے بعد گودھرا سمیت پوری ریاست میں بدترین فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک ہزار اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار مسلمان ہلاک ہوئے تھے۔
قبل ازیں جب بھی وزیر اعظم نریندر مودی سے گجرات فسادات کے سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ان پر عائد کیے جانے والے الزامات ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔
فسادات شروع ہونے کے ایک روز بعد 28 فروری کو احمد آباد میں واقع مسلمانوں کے ایک رہائشی کمپلکس گلبرگ سوسائٹی پر فسادیوں نے حملہ کیا تھا جس میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری سمیت 68 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے عدالت میں اپیل دائر کرکے اپنے شوہر احسان جعفری اور دیگر ہلاک شدگان کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر الزام عائد کیا تھا کہ فسادات بھڑکانے کی سازش میں وہ بھی شامل تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گلبرگ سوسائٹی میں حملے کے وقت ذکیہ پہلی منزل پر ایک کمرے میں چھپ گئی تھیں جس کی وجہ سے وہ محفوظ رہیں۔ بعدازاں انہوں نے 2006 میں فسادیوں کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی اور مسلمانوں کی ہلاکت کی سازش کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے شوہر نے پولیس اور اعلیٰ افسروں کو فون کیا مگر کسی نے مدد نہیں کی۔
یہ واقعہ گلبرگ قتل عام کیس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو ریاست میں ہونے والے دس بدترین فسادات میں سے ایک تھا۔
فسادات کی تحقیقات میں کب کیا ہوا؟
سپریم کورٹ کی ہدایت پر 2008 میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی گئی جس نے سپریم کورٹ کی نگرانی میں گلبرگ سوسائٹی قتل عام سمیت فساد کے دس بڑے واقعات کی از سر نو تحقیقات شروع کیں۔
سپریم کورٹ نے 2011میں ایس آئی ٹی کو ہدایت دی کہ وہ ذکیہ جعفری کے الزامات کی بھی تحقیقات کرے۔جس کے بعد ایس آئی ٹی نے نریند رمودی سمیت متعدد ملزمان سے پوچھ گچھ کی۔
ایس آئی ٹی نے اپنی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ میں قرار دیا کہ ذکیہ جعفری کے الزامات غلط ہیں اور پھر فروری 2012 میں مجسٹریٹ کی عدالت میں اپنی کلوزر رپورٹ جمع کرا دی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نریندر مودی سمیت تمام 63 افراد میں سے کسی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔
ذکیہ نے مجسٹریٹ کی عدالت میں ایس آئی ٹی رپورٹ کے خلاف درخواست جمع کرائی جسے خارج کر دیا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے 2017 میں گجرات ہائی کورٹ میں ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو چیلنج کیا۔ ہائی کورٹ نے بھی درخواست مسترد کرتے ہوئے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو درست قرار دیا۔
بعد ازاں ذکیہ جعفری 2018 میں سپریم کورٹ پہنچیں جہاں تین سال تک ان کی درخواست پر کوئی سماعت نہیں ہو سکی۔ بعدازاں عدالت نے تفصیلی سماعت کے بعد 9 دسمبر 2021 کو اس پر اپنا فیصلہ محفوظ کیا۔
ایس آئی ٹی کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل مکل روہتگی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ذکیہ جعفری کی درخواست خارج کرنے کے ذیلی عدالت اور گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کرنا چاہیے ورنہ ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑے گا۔
ذکیہ جعفری کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ ایس آئی ٹی نےگجرات فسادات کی تحقیقات نہیں کی بلکہ 'باہمی تعاون کی ایک مشق' کی اور اس کی تحقیقات میں سازشیوں کو بچایا گیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایس آئی ٹی کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کیوں کہ اس کی رپورٹ حقائق کے برعکس ہے۔ ان کے مطابق ایس آئی ٹی کے ارکان کو انعامات سے نوازا گیا اور اس کے چیئرمین آر کے راگھون کو قبرص کا سفیر بنا دیا گیا۔
انسانی حقوق کی ایک سرگرم تنظیم 'پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) کے چیئرمین این ڈی پنچولی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے ذکیہ جعفری کی درخواست خارج کر دی لیکن بحیثیت وزیر اعلیٰ فسادات پر قابو پانا نریندر مودی کی ذمے داری تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ذکیہ جعفری نے اپنی درخواست میں نریندر مودی کو براہِ راست ملزم ٹھہرایا تھا اور کہا تھا کہ ایس آئی ٹی نے ایسے بہت سے لوگوں سے پوچھ گچھ نہیں کی جن سے کرنا ضروری تھا۔ ان کے خیال میں یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ جن مقدمات میں ایس آئی ٹی نے غیر جانب داری کا مظاہرہ کیا ان میں ملزموں کو سزا ہوئی ہے۔
گجرات فسادات کے متاثرین کے لیے مختلف عدالتوں میں قانونی لڑائی لڑنے والی انسانی حقوق کی کارکن تیستا سیتلواڈ نے اس معاملے پر ردعمل دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ذکیہ جعفری کے ساتھ وہ بھی اس کے درخواست گزاروں میں شامل رہی ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے اور ان کے وکلا نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دینے سے منع کر رکھا ہے۔
خیال رہے کہ گجرات فساد کے وقت اٹل بہاری واجپائی ملک کے وزیر اعظم تھے اور انہوں نے ریاست کے متاثرہ علاقوں کے دورے کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں فسادات پر اظہار افسوس کیا تھا اور برابر میں بیٹھے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے کہا تھا کہ ایک حاکم کو اپنا راج دھرم (فرض منصبی) نبھانا چاہیے۔
اس پر نریندر مودی نے کہا تھا کہ" ہم وہی تو کر رہے ہیں۔"
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں سے بھی جب بحیثیت وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے کردار کے سلسلے میں سوال کیا جاتا ہے تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے فسادات کو پھیلنے سے روکنے کی پوری کوشش کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان پر اتنی جلد قابو پا لیا گیا تھا۔
لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں اور بہت سی مسلم تنظیموں کا الزام ہے کہ گودھرا ٹرین آتش زدگی کے بعد ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف فساد برپا کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی تھی۔