رسائی کے لنکس

تیونس:ہزاروں افراد یورپ داخل ہونے کی کوشش میں


تیونس:ہزاروں افراد یورپ داخل ہونے کی کوشش میں
تیونس:ہزاروں افراد یورپ داخل ہونے کی کوشش میں

جنوری میں تیونس کے ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے اب تک تیونس کے ہزاروں لوگوں نے بحرِ روم پار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کی ہے ۔ اب یورپ تارکین وطن کی نئی لہر کی آمد کے لیئے تیار ہو رہا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو لیبیا کی افرا تفری سے پریشان ہو کر بھاگ رہےہیں۔ تیونس کا قصبہ زارزس ماہی گیری کا مرکز ہے اور یہاں کے بہت سے لوگوں نے بھی یورپ پہنچنے کی کوشش کی ہے جس کا نتیجہ بسا اوقت المیوں کی صورت میں نکلا ہے ۔

سمندر جنوب مشرقی تیونس کے قصبے زارزس کی زندگی کا لازمی جزو ہے ۔ ایک لاکھ چالیس ہزار کی آبادی کا یہ قصبہ لیبیا کی سرحد سے زیادہ دور نہیں۔ یہاں کے بیشتر باسی گذر اوقات کے لیئے ماہی گیری پر اور یورپی سیاحوں پر انحصار کرتے ہیں جو ساحلِ سمندر کے تفریحی مقامات پر چھٹیاں گذارنے آتے ہیں۔

لیکن ہنا ظائر اور ان کے گھرانے کے لیئے سمندر دکھوں کا پیغام لایا ہے ہنا کے بھائی محمد اور ان کے بھتیجے عبدا للہ تیونس کے ان ہزاروں لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے یورپ میں قسمت آزمائی کے لیئے اس مہینے خستہ حال کشتیوں میں سوار ہو کر بحرِ روم کا سفر شروع کیا۔ انھوں نے اس سفر کے لیئے فی کس 1,400 ڈالر ادا کیئے تھے جو یہاں کے لیئے بہت بڑی رقم ہے۔

ہنا ظائر نے بتایا’’وہ سمندر میں لا پتہ ہو گئے اور مجھے کچھ پتہ نہیں کہ ان پر کیا گذری۔ میری بہن کا بیٹا بھی ان کے ساتھ تھا۔ اس کا بھی کچھ پتہ نہیں۔‘‘

اس فیملی کا کہنا ہے کہ تیونس کے ساحلی محافظوں نے اس کشتی کو جس پر یہ نوجوان سوار تھے، جان بوجھ کر ٹکر ماری۔ کشتی میں سوار کچھ لوگ بچا لیئے گئے۔ پانچ لوگ ڈوب گئے اور ان دو نوجوانوں سمیت، درجنوں افراد لا پتہ ہیں۔ اس الزام کی غیر جانب دار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔

یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ عوامی طاقت کے زور سے صدر زین العابدین بن علی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے چند ہفتے بعد ہی، یہ نوجوان اپنا ملک کیوں چھوڑ نا چاہتے تھے۔ یہاں بہت سے لوگوں کو امید ہے کہ اس انقلاب کے نتیجے میں صحیح جمہوریت کے دور کا آغاز ہوگا۔

ایک شہری، ولید فلاح نے اپنی ویب سائٹ زارزس ٹی وی کے لیئے سمندر کی نذر ہو جانے والے ان نوجوانوں کی کہانی کی فلم بنائی ہے ۔ وہ کہتے ہیں’’زارزس کے بہت سے لوگ آج کل فرانس میں کام کرتے ہیں۔ وہ گرمیوں کے زمانے میں کاریں اور دوسری بہت سی چیزیں لے کر آتے ہیں جو ہمیں یہاں میسر نہیں۔زارزس کے نوجوان روزگار کی تلاش میں ہیں جو یہاں دستیاب نہیں ہے۔‘‘

یہاں معیشت کا دارومدار زراعت، سیاحت اور ماہی گیر ی پر ہے ۔ ان تینوں شعبوں میں آج کل حالات خراب ہیں۔ ہنا ظائر کا بھائی ایک ہوٹل میں کام کرتا تھا۔ وہ کہتی ہیں’’اسے بہتر زندگی کی تلاش تھی۔ تیونس میں تو روزگار نہیں ملتا ۔ یہاں انقلاب کی وجہ سے ٹورازم کی حالت خراب ہے۔‘‘

ماہی گیرJoar Goubba اسی کشتی میں سوار تھے جو اٹلی کے جزیرے Lampedusa جاتے ہوئی ڈوب گئی ۔ وہ بچ گئے Goubba کہتے ہیں کہ اگر انہیں ایک موقع اور ملا تو وہ پھر کوشش کریں گے۔ ان کے گھرانے میں نو افراد ہیں اور ان سب کا پیٹ بھرنا ان کی ذمہ داری ہے۔

صرف اسی ایک مہینے میں تیونس کے 5,000 افراد Lampedusa پہنچے ہیں۔ اٹلی نے یورپ سے درخواست کی ہےکہ وہ بحر روم میں گشت کے سلسلے میں مدد دے ۔ زارزس میں کشی کے ڈوبنے کے واقعے کے بعد کچھ سناٹا ہو گیا ہے لیکن شاید یہ سسلسلہ زیادہ دن نہیں چلے گا۔

اب یورپ تارکین وطن کے اگلے ریلے کی تیاری کر رہا ہے ۔ یہ لیبیا کے لوگ ہیں جو اپنے ملک میں افرا تفری اور ہنگاموں سے گھبرا کر فرار ہو رہے ہیں۔ لیکن فوری طور پر لیبیا کے حالات کا اثر زارزس پر پڑا ہے ۔ لیبیا سے فرار ہو کر ہزاروں مصریوں نے زارزس میں پناہ لی ہے جو لیبیا کی سرحد سے 65 کلومیٹر دور ہے ۔

زارزس کے شہریوں نے ان مصریوں کا خیر مقدم کیا ہے اور بعض نوجوان سوچتے ہیں کہ اگر وہ کبھی یورپ پہنچ سکے تو شاید ان کا بھی ایسا ہی خیر مقدم کیا جائے ۔

XS
SM
MD
LG