تیونس کےعبوری اہل کاروں نےایک نئی حکومت کا اعلان کیا ہےاوراُس خوفناک سکیورٹی ایجنسی کو ختم کردیا گیا ہےجوسابق صدرزین العابدین بن علی کے دور میں سیاسی منحرفین کو ہدف بنانے میں استعمال ہوتی تھی۔
عبوری وزیرِ اعظم الباجي قائد السبسي نے پیر کے روزنئی کابینہ کا اعلان کیا جو سیاستدانوں کے برعکس مکمل طور پر پیشہ ورافرادپر مشتمل ہے۔ تاہم، اُنھوں نے پچھلی عبوری حکومت میں اہم وزارتوں کے سربراہوں کو نئی عبوری حکومت میں بھی شامل رکھا ہے۔
جنوری میں مسٹر بن علی کی معطلی کے بعد مظاہرین نے تبدیلی کے عمل میں سست رفتاری پر اپنے غصے کا اظہار ہنگامے کرکےکیا جسکے نتیجے میں گذشتہ ماہ حکومت کے چھ ’ہائی پروفائل‘ ارکان ، جِن میں سابق وزیرٕ ِ اعظم محمد غنوچی بھی شامل ہیں سبک دوش ہوگئے تھے۔
پیر کو ایک علیحدہ بیان میں تیونس کی وزارتِ داخلہ نے سابق صدر کی سیاسی پولیس اوراسٹیٹ سکیورٹی فورس کے خاتمے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ فیصلہ’ انقلاب کے اقدار‘ کے عین مطابق ہے۔ اِس بات کا مطالبہ سرگرم کارکنوں کی طرف سےملک میں جمہوریت کے حق میں جدوجہد کے دوران کیا جاتا رہا ہے۔
سیاسی مخالفیں کے خلاف چھان بین کا کام اس فورس کے ذمے تھا، جو سابق صدر کے دور میں مبینہ طور پر انسانی حقوق کے خلاف کاروائیوں میں ملوث ہواکرتی تھی۔
تیونس کے عبوری صدر فواد مبزہ نے کہا ہے کہ ایک نئی کونسل کے انتخاب کے لیے 24جولائی کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ یہ کونسل آئین کو نئے سرے سےتشکیل دے گی اور ملک میں انقلاب کے بعد عبوری دور کےمعاملات کو چلائے گی۔
طویل مدت تک تیونس پر حکمرانی کرنے والے لیڈر کےخلاف کامیاب بغاوت کے بعد مصر، لیبیا، یمن، بحرین، اومان، اردن، الجیریا، مراقش ، ایران اور عراق میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔