شمال مشرقی شام کے مختلف حصوں میں ہفتے کے روز ترک حمایت یافتہ شامی جنگجوؤں اور کرد قیادت کی افواج کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ لڑائی کی نگرانی پر مامور ایک اہل کار نے بتایا ہے کہ گاؤں پر حملے انھوں نے کیے جن میں سے چند لوگ ترکی کی سرحد کے اندر سے آئے تھے۔
دونوں فریق نے لڑائی کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرایا ہے، جس کے باعث امریکہ کی ثالثی میں طے ہونے والی جنگ بندی میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔
پانچ روزہ جنگ بندی کے تقریباً دو دن بعد دونوں فریقوں نے کلیدی سرحدی قصبے، راس العین کے گرد گولیوں کا تبادلہ کیا۔
شامی ترک سرحد کے ساتھ والے محاذوں سے کرد قیادت کی افواج کے انخلا کے کوئی آثار نہیں ہیں، جیسا کہ سمجھوتے میں مطالبہ کیا گیا تھا، جو ترکی اور امریکہ کے درمیان طے پایا تھا۔
ترکی کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ وہ معاہدے کی ’’مکمل پاسداری‘‘ کر رہی ہے اور یہ کہ امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے اس کی جانب سے امریکہ کے ساتھ ’’مستقل رابطہ‘‘ قائم ہے۔
ترک وزارت دفاع نے الزام لگایا کہ گزشتہ 36 گھنٹوں کے دوران، کرد قیادت والے جنگجوؤں نے 14 حملے اور ہراساں کرنے کے حربے استعمال کیے ہیں، جن میں سے زیادہ تر راس العین کے قصبے میں کیے گئے، جو جنگ بندی سے پہلے اتحادی جنگجوؤں کے قبضے میں تھا۔
بتایا گیا ہے کہ شامی کرد جنگجوؤں نے بھاری توپوں سے گولہ باری کی، راکٹ داغے، اور بھاری مشین گنوں سے طیارہ شکن اور ٹینک شکن گولے برسائے۔
ترکی نے ہفتے کے روز یہ بھی کہا کہ اس نے داعش کے 41 مشتبہ ارکان کو پھر سے پکڑ لیا ہے، جو رواں ہفتے کے اوائل میں ہونے والی لڑائی کے دوران ایک حراستی کیمپ سے بھاگ نکلے تھے۔
دریں اثنا، کردوں نے نائب صدر مائیک پنس سے اپیل کی ہے کہ سمجھوتے پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں، جسے بقول اس کے، ترکی نے ناکام کیا ہے، اور راس العین کا ابھی تک قبضہ برقرار رکھا ہے۔