تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام کے تنازعے میں ترکی کا اہم کردار ہے اور ترکی میں نئے انتخابات کے بعد اردوان حکومت کا شام کے صدر بشار الاسد کے مستقبل، داعش کے اثر و نفوذ اور پناہ گزینوں کے جاری مسئلے میں خاصا عمل دخل دیکھنے میں آ سکتا ہے۔
اردو سروس کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں واشنگٹن میں مقیم ڈاکٹر زبیر اقبال اور لندن کے تجزیہ کار بیرسٹر امجد ملک نے بتایا کہ بین الاقوامی برادری حالیہ انتخابات کے نتائج کے بعد اس بات کا جائزہ لے گی کہ ترکی متعلقہ مسائل اور علاقے میں درپیش چیلنجز سے کس طرح نمٹتا ہے۔
ترکی کے حالیہ انتخابات میں صدر اردوان کی پارٹی نے تقریباً 50 فی صد ووٹ حاصل کرکے اکثریت حاصل کر لی ہے اور 550ارکان کی اسمبلی میں ’اے کے پی‘ کے حصے میں 316 نشستیں آگئی ہیں۔ تقریباً پانچ مہینے پہلے ترکی میں جو عام انتخابات ہوئے تھے اُن میں ’اے کے پی‘ پارٹی نے 10 سال کے عرصے میں پہلی مرتبہ اپنی اکثریت کھو دی تھی اور اس کے نتیجے میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود کوئی مخلوط حکومت کا قیام عمل میں نہ آسکا تھا۔
اب تازہ نتائج کے بعد، مسٹر اردوان کو واضح مینڈیٹ مل گیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی قیادت میں حکومت تشکیل دے سکیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تازہ انتخاب کے بعد ترکی کے سیاسی منظرنامے میں اب سکون آجائے گا اور عدم استحکام کا خطرہ ٹل جائے گا۔
تجزیہ کاروں نے اپنی گفتگو میں داعش کے حوالے سے ترکی کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ، بقول اُن کے، ’اِس معاملے میں اس کی پالیسی دو رُخی کا شکار رہی ہے‘۔
تاہم، شام میں جاری خانہ جنگی کے بارے میں اُنھوں نے اِس جانب توجہ دلائی کہ اس کے حل کے بارے میں اتفاقِ رائے کی کمی ہے۔ اُنھوں نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ امریکہ نے 50 اسپیشل فوجی جو شام روانہ کیے ہیں، وہ، اُن کے بقول، ’محض علامتی ہے‘۔
پروگرام میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے وسط ایشیا کے دورے پر بھی بات ہوئی۔
تجزیہ کاروں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اس دورے سے وسط ایشیا کے رہنماؤں کو یہ پیغام ملے کا گہ، اُن کے الفاظ میں، اُنھیں خود کو روس کا محتاج نہیں سمجھنا چاہیئے۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ اُن کے دورے میں وسط ایشیا کےملکوں کے اندر مذہبی انتہاپسندوں کی بھرتی کے مراکز کی موجودگی کے بارے میں بھی صورت حال اجاگر ہوگی۔
مزید تفصیل کے لیے درج ِ ذیل وڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے: