سمیتا نوردوال
اتوار کے روز ترکی میں عام انتخابات ہو رہے ہیں، جو گذشتہ پانچ ماہ کے دوران دوسرے قومی الیکشن ہیں، جس سے قبل کی رائے دہی غیرفیصلہ کُن تھی جس کے باعث اتحادی حکومت تشکیل دینے کے لیے مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوئےتھے۔
جون سے اب تک، اِس نیٹو رُکن ملک اور امریکی اتحادی کو بڑھتے ہوئے سلامتی کے خطرات اور سیاسی کشیدگی درپیش رہی ہے۔
ترکی میں ہونے والے حملوں کا ذمہ دار داعش کے شدت پسندوں کو بتایا جاتا ہے، جن میں 10 اکتوبر کو انقرہ میں کُردوں کی حمایت میں نکالی جانے والی ریلی پر ہونے والے خودکش بم حملے شامل ہیں، جن میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
دریں اثنا، کُردوں اور ترک حکومت کے درمیان تنازعے نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے، جب کہ کُردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے باغیوں کے ساتھ دو سالہ جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہوچکا ہے۔
ترکی کے انتخابات کے خدوخال پر ایک نظر۔
انتخابی نظام
ترکی کا پارلیمان، اعلیٰ قومی اسمبلی میں کُل 550 نشستیں ہیں، جن میں سے اکثریت کے حصول کے لیے 276 سیٹیں جیتنا ضروری ہے۔ اکثریتی جماعت وزیر اعظم کا نام تجویز کرتی ہے اور اصل طاقت اُسی کے پاس ہوتی ہے۔ صدر کا عہدہ علامتی اہمیت رکھتا ہے۔
پارلیمان کے ارکان 85 انتخابی اضلاع سے چُنے جاتے ہیں جو مختلف قانون سازوں کا انتخاب کرتے ہیں، جس کا انحصار اُن کے عدد اور آبادی پر ہوتا ہے۔
تاہم، پارلیمان تک پہنچنے کے لیے، ہر جماعت کو قومی سطح کے 10 فی صد ووٹ لینے پڑتے ہیں۔ اگر وہ ناکام ہوتے ہیں، تو اُن کی نشستیں دیگر جماعتوں کو چلی جاتی ہیں، جس کی بدولت بڑی جماعتون کو فائدہ پہنچتا ہے۔
اہم سیاسی جماعتیں
جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی (اے کےپی)
جب سے سماجی طور پر اس قدامت پسند سیاسی جماعت نے سنہ 2002 میں اکثریت سے انتخاب جیتا ہے، یہ اقتدار میں رہتی چلی آرہی ہے۔ اسکے رہنما، احمد دائوداوگلو وزیر اعظم ہیں؛ جب کہ جماعت کے سابق رہنما رجب طیب اردگان صدر ہیں۔
دائوداوگلو اتوار کے انتخابات میں پارٹی کیے چوٹی کے امیدوار ہیں۔ مخالفین اے کے پی پر اسلامی جڑوں کی طرف لوٹنے او مطلق العنانی کی روایت اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
ریبپلیکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی)
اس جماعت کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک تھے، جسے سنہ 1923 میں ترک جمہوریہ کے قائد نے قائم کیا تھا۔ یہ ترکی کی قدیم ترین سیاسی جماعت ہے، جو گرینڈ نیشنل اسمبلی کی حزب مخالف کی کلیدی جماعت ہے۔
اس پارٹی کے سربراہ اور انتخابات میں سرکردہ امیدوار، کمال کیلی داروگلو ہیں۔
نیشنلسٹ مومنٹ پارٹی(ایم ایچ پی)
جون 2015ء کے عام انتخابات میں، ایم ایچ پی نے 16.3 فی صد ووٹ حاصل کیے اور 80 نشستیں حاصل کیں، اور یوں ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔
یہ کُردوں کے ساتھ امن کی شدید مخالف ہے اور اِس کا موئقف ہے کہ 'پی کے کے' کی دہشت گردانہ سرگرمیاں ترکی کے مسائل کی جڑ ہیں، جب کہ کُردوں کے حقوق کی بات کرنا درست ہے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (اے ڈی پی)
ایچ ڈی پی سنہ 2012 میں بنی۔ یہ پیپلز ڈیموکریٹک کانگریس کا ایک دھڑا خیال کیا جاتا تھا، جس میں بائیں بازو کی متعدد تحریکیں شامل تھیں؛ جس سے قبل وہ اپنے مشترکہ امیدوار کھڑے کرتی تھیں۔
تجزیہ کاروں کی پیش گوئی کے مطابق، جون سات کے مقابلے میں یکم نومبر کے اِنتخابات میں رائے دہی میں حصہ لینے والوں کی تعداد خاصی بڑی ہوگی، جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس کہ شرح 86 فی صد تک ہوسکتی ہے۔
ایک اہم عنصر یہ ہوگا آیا 'اے کے پیٗ انتخابی اضلاع میں اپنی ساکھ بہتر بنا سکے گی، جب کہ جون میں سو یا ہزار ووٹوں کے فرق سے وہ 81 میں سے 38 کلیدی صوبوں میں ہار گئی تھی۔
اگر پھر بھی معلق پارلیمان سامنے آتا ہے، تو سیاسی جماعتوں کے پاس 45 روز کی مہلت ہوگی کہ وہ اتحادی حکومت تشکیل دیں جب کہ زیادہ تر امکان یہی ہے کہ 'اے کے پی' کے سخت مخالفین 'ایم ایچ پی' یا سیکولر، 'سی ایچ پی' کے مخالف ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔
اگر پھر بھی وہ ناکام ہوتے ہیں، تو تین ماہ کے اندر اندر نئے انتخابات منعقد کرائے جائیں گے، جو کہ دو برس کے اندر پانچویں انتخابات ہوں گے۔
رجسٹرڈ ووٹروں کی کُل تعداد پانچ کروڑ 40 لاکھ ہے، جب کہ ملک کی مجموعی آبادی سات کروڑ 80 لاکھ ہے۔ 29 لاکھ ووٹروں کا تعلق بیرون ملک تارکین وطن پر مشتمل ہے۔