ترکی کی 550 رکنی پارلیمنٹ نے ایک طویل اجلاس کے بعدجمعے کے روز اْس آئینی بل کی منظوری دے دی ہے جس میں شامل اصلاحات کا مقصد آئینی عدالت کواعلیٰ فوجی افسران کے خلاف مقدمات چلانے کا اختیار دینا ہے ۔
بر سرِاقتدار جماعت اے کے پارٹی کی جانب سے پیش کیے گئے اِس بل میں ججوں کی تعیناتی میں پارلیمنٹ کی رائے حاصل کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
بل کے حق میں 336 ووٹ پڑے جو کہ آئین میں مجوزہ اصلاحات کوفوری طور پر قانونی درجہ دینے کے لیے درکار دو تہائی اکثریت کے لیے نا کافی تھے۔اب اِس بل کا مسودہ ترک صدر عبدالله گل کو پیش کیا جائے گاجن کے دستخط کے بعد 60 دن کے اندر ملک میں اِس پر ریفر نڈم کرایاجا سکتا ہے۔
حکومتی عہدیداران نے ریفر نڈم جولائی میں کرانے کا خیال ظاہر کیا ہے تاہم حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کا کہنا ہے کے وہ ریفر نڈم رکوانے کے لیے آئینی عدالت سے رجوع کریں گی۔
ترک وزیراعظم طیب اْردگان کے بقول آئینی اصلاحات ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے لیے رکھی گئی شرائط کا حصہ ہیں۔
ترک آئین میں یہ مجوزہ اصلاحات ایک ایسے وقت سامنے آئی ہیں جب پاکستان میں بھی انہیں معاملات پر بحث کی جا رہی ہے۔
پاکستانی آئین میں گذشتہ مہینے ترامیم کی گئی ہیں جن کے بعد اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے چناؤمیں حکومت کا کردار بڑھ گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے سمیت کئی سنگین الزامات کی روشنی میں عدالتی کارروائی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔