حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان آئینی اصلاحات کی تجویز سے ملک جمہوری ہو جائے گا اور یورپی یونین کے مطالبات کو پورا کر سکے گا۔ ترکی کا آئین ملک کے فوجی حکمرانوں نے، جنھوں نے 1980 میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا، بنایا ہے ۔ اس کے بعد سے اب تک ملک میں اس آئین پر تنقید ہوتی رہی ہے ۔
Bilgi University میں سیاسیات کے پروفیسرسَولی اوزل کہتے ہیں کہ بہت سے ترک آئینی اصلاحات کے خواہشمند ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’موجودہ آئین 1982 میں فوج نے فوج ہی کے لیے لکھا تھا۔ اس کی بنیاد اس مفروضے پر تھی کہ سر دجنگ کبھی ختم نہیں ہو گی اور ترکی میں ایک نیم آمرانہ نظام جاری رہ سکے گا۔ اس آئین کا بنیادی فلسفہ آزادیوں کا نہیں بلکہ پابندیوں کا ہے جو آج کی مغربی دنیا کے نظریات کے بالکل خلاف ہے۔ میرے خیال میں یہ آئین ملک کی ضرورتوں اور ملک کے موجودہ موڈ کے بھی خلاف ہے۔‘‘
بر سر اقتدار جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کا رجحان اسلام کی طرف ہے۔ آئین میں تبدیلی کے لیے اس نے 26 نکات کا ایک پیکیج تجویز کیا ہے۔ اس میں عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو ختم کرنے سے لے کر 1980 کے فوجی انقلاب کے لیڈروں پر مقدمہ چلانے پر پابندی کو ختم کرنے اور سیاسی پارٹیوں کو غیر قانونی قرار دینے کے عمل کو زیادہ مشکل بنانے تک، بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ لیکن ایک انتہائی متنازع تجویز وہ ہے جس کے تحت کابینہ کے وزیرو ں کی طرح مسلح افواج کے سربراہ اور دوسرے اعلیٰ افسروں پر بھی مقدمہ چلایا جا سکے گا۔
منگل کے روز ترک صدر عبداللہ گُل نے حکومت میں اپنے حامیوں کو محتاط رہنے کی تلقین کی اور کہا کہ یہ بات بہت اہم ہے کہ تبدیلی صحیح طریقے سے کی جائے۔نائب وزیرِ اعظم Cemil Cicek کہتے ہیں کہ ترکی اس آئین کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ یہ تبدیلیاں ہونی ضروری ہیں۔ ہمارا مقصد اپنی حکومت کو مضبوط بنانا نہیں ہے۔ ان آئینی ترامیم کا مقصد ہر شعبے میں عوام کی حاکمیت قائم کرنا ہے۔
لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ تبدیلیوں کی ضرورت تو ہے لیکن حکمراں AK پارٹی نے جو تبدیلیاں تجویز کی ہیں ان کی آڑ میں وہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنا اور اپنے اسلامی ایجنڈے کو فروغ دینا چاہتی ہے۔وہ ایک تجویز کی طرف توجہ دلاتے ہیں جس کے تحت آئینی عدالت میں ججوں کی تعداد 11 سے بڑھا کر 19 کر دی جائے گی اور ان میں سے 16 کا تقرر صدر اور تین کا پارلیمنٹ کرے گی۔
رِضا ٹرمَن وکیل ہیں جنھوں نے انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں ترکی کی نمائندگی کی تھی۔ وہ کہتے ہیں’’عدلیہ پر، آئینی عدالت پر اور اعلیٰ سطح کی عدلیہ کونسل پر حکومت کا پورا کنٹرول ہو گا۔ ہر مملکت میں اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے اور قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔عدلیہ جمہوری طور پر منتخب حکومت کے اختیارات کا تعین کرتی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہو تو حکومت من مانی کر سکتی ہے۔ ترکی میں ہمیں آج کل یہی خطرہ درپیش ہے ۔‘‘
عدلیہ اور خاص طور سے آئینی عدالت حکومت کے لیے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور اس نے کئی اہم اصلاحات کے خلاف فیصلہ دیا ہے ۔وزیرِ اعظم رجب طیب اردگان کہتے ہیں کہ عدلیہ سیاست کا شکار ہے اور اس نے لوگوں کی جمہوری خواہشا ت کو غصب کر رکھا ہے۔ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس پیکیج کو دوسری پارٹیوں کی حمایت بھی حاصل ہو جائے ۔ انہیں اصرار ہے کہ یہ پورا پیکج پاس کیا جانا ضروری ہے ۔
لیکن حزب اختلاف کی بڑی پارٹی، پیپلز ریپبلیکن پارٹی کے Hakki Okay کہتے ہیں کہ ہم کچھ شقوں کی حمایت کریں گے لیکن اگر اصلاحات کو پیکج کی شکل میں پیش کیا گیا تو ہم ا س کی مخالفت کریں گے۔ حزبِ ِ اختلاف کی دوسری پارٹیاں بھی ان سے متفق ہیں۔ اس طرح حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں اتنے ووٹ نہیں ہوں گے کہ دو تہائی اکثریت سے اصلاحات کو منظور کیا جا سکے۔زیادہ امکان یہی ہے کہ اصلاحات کے لیے ملک میں ریفرینڈم ہو گا۔
اس پیکج پر ووٹنگ اپریل کے وسط سے پہلے نہیں ہو گی کیوں کہ اس سے پہلے پارلیمنٹ میں ان تجاویز کی جانچ کی جائے گی۔ اگر ریفرنڈم ہوا تو اس میں مزید دو مہینے لگ جائیں گے۔ آئینی عدالت کے سربراہ Hasim Kilic ہیں ۔ان کے بارے میں مبصرین کا خیال ہے کہ وہ حکومت کے ہمدرد ہیں۔ انھوں نے انتباہ کیا ہے کہ اصلاحات کے پیکیج کو اتفاقِ رائے سے پیش کیا جانا چاہیئے ورنہ وہ ان کی عدالت میں پہنچ جائے گا اور وہ اسے مسترد کر سکتے ہیں۔ تا ہم مبصرین نے انتباہ کیا ہے کہ اس طرح ملک بہت بڑے سیاسی بحران میں گِھر جائے گا۔