ترکی کے ریٹائرڈ جنرلوں کنان ایورن اور تھاسن ساہن کایاکے خلاف تاریخی مقدمے کی سماعت تین عشروں سے زیادہ مدت کے بعد بدھ کو شروع ہوئی۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کی قیادت کی تھی جس کے نتیجے میں لوگوں کو تشدد کانشانہ بنانے، پھانسی چڑھانے اور انہیں غائب کرنے کے واقعات رونما ہوئے۔
94 سالہ ایورن اور 87 سالہ ساہن کایا کی صحت انتہائی خراب ہے اور وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوئے۔
ان پر ریاست کے جرائم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جس پر انہیں عمر قید تک کی سزا ہوسکتی ہے۔
بدھ کے روز انقرہ میں سینکڑوں مظاہرین عدالت کے احاطے کے باہر اکھٹے ہوگئے۔ انہوں نے جھنڈے اور بینر اٹھائے ہوئے تھے جن پر حکومت کا تختہ الٹنےکے نتیجے میں حکمرانوں کی زیادتیوں کا نشانہ بننے والوں کے نام درج تھے۔ مظاہرین انصاف مہیا کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔
کچھ ترک باشندے 1980ء کی فوجی بغاوت کے بعد ابتدا ء جنرل ایورن کو ایک ہیروکے طورپر دیکھتے تھے اور انہیں دائیں اور بائیں بازو کی تنظیموں کے درمیان لڑائیوں کے خاتمے کا کریڈٹ دیتے تھے۔ ان تنازعوں کے باعث ترکی میں خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔
لیکن جنرل ایورن اور بغاوت میں شامل ان کے دیگر فوجی عہدے داروں نے جلد ہی پارلیمنٹ پر تالے ڈالے دیے ، آئین معطل کردیا اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی۔
تین سال بعد جب جنرل ایورن اور ساہن کایا نے اقتدار سویلین نمائندوں کو واپس کیا تو تب تک تقریباً پانچ لاکھ افراد کو گرفتار کیا جاچکاتھا، سینکڑوں تشدد کا نشانہ بن گئے تھے اور 50 افراد کو پھانسیاں دی جاچکی تھیں۔ جب کہ سینکڑوں ترک شہری لاپتا ہوگئے تھے۔
بعدازاں ایورن وزیراعظم بن گئے تھے اور وہ اپنے اس جملے کی وجہ سے پہنچانے جاتے تھے کہ کیا ہمیں دہشت گردوں کو پھانسی دینے کی بجائے انہیں پالنا چاہیے؟
ترک پارلیمنٹ ان 350 تنظیموں اور افراد میں شامل ہیں جنہوں نے اس مقدمے میں فریق بننے کی درخواست کی ہے۔
وزیراعظم رجب طیب اردوان نے کہاہے کہ ان کی حکومت اس مقدمے کی سنجیدگی سے پیروی کرے گی۔
ان کا کہناتھا کہ اس مقدمے کانتیجہ عوام اور جمہوریت کے حق میں بہتر ہوگا۔
ایورن اور ساہن کایا دونوں کومقدمات کے خلاف جو تحفظ دیاکیا گیاتھا ، اس کی مدت پچھلے سال ختم ہوگئی تھی