واشنگٹن —
ترکی کے بینک ایران کو اس امریکی دباؤ کے باوجود کہ ایران تیل کے بدلے سونے کی تجارت ختم کرے، سونا بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایران کے لیےعالمی پابندیوں کا سامنا کرنا آسان ہو گیا ہے۔
گذشتہ برس، تہران نے اس قیمتی دھات کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کیا۔ یہ ایران کی طرف سے ان عالمی پابندیوں اور دباؤ کو ناکام بنانے کی کوشش ہے جو اس کے جوہری پروگرام پر عائد کی گئی ہیں۔ چند ممالک کو اندیشہ ہے کہ ایران یہ سونا جوہری ہتھیار بنانے کے لیے بھی استعمال کرسکتا ہے۔
اطیلہ یسیلادا استنبول کے ایک تحقیقی ادارے سے وابستہ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ، ’’ترکی تہران کی سونے کی مد میں ضروریات پوری کر رہا ہے۔ پچھلے برس سونے کی خریداری کا رجحان سوئٹزرلینڈ سے لے کر ابو ظہبی تک مختلف رہا۔ لیکن پچھلے سال سونے کی فروخت گیارہ ارب ڈالر کے لگ بھگ رہی۔ اس میں زیادہ سرمایہ کاری ترکی کے باشندوں کی جانب سے کی گئی۔ اور یہی سونا اب ایران کے لیے بنیادی کرنسی بن گیا ہے جسے وہ دوسرے ممالک سے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے‘‘۔
گذشتہ سال نومبر میں ترکی کے ڈپٹی وزیر ِ اعظم علی باباکان نے تصدیق کی تھی کہ تہران گیس کی برآمدگی کے نتیجے میں ترکی کی جانب سے لیروں میں کی جانے والی ادائیگی کو سونا خریدنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ایران اپنے تیل کی برآمدات کا نوے فیصد ترکی کو بیچتا ہے۔ ایران ترکی کو تیل مہیا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ ترکی سب سے زیادہ تیل روس سے حاصل کرتا ہے۔
ایران کی سونے کی خریداری کو روکنے کے لیے امریکی صدر باراک اوباما نے اس ماہ ایک ایسے قانون پر دستخط کیے جس کی رُو سے ایران کو قیمتی دھات نہیں بیچی جا سکتی۔ لیکن ترک وزیر ِ خارجہ کے ترجمان سیلکک اونل کہتے ہیں کہ ترکی پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ان کے الفاظ میں، ’’ترکی صرف اقوام ِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی جانب سے سامنے آنے والی قراردادوں اور پابندیوں کے اطلاق کا پابند ہے‘‘۔
اطیلہ یسیلادا کا کہنا ہے کہ انقرہ کو بالآخر ان پابندیوں کے سامنے جھکنا پڑے گا۔ ان کے مطابق، ’’امریکہ پہلے تو ترکی کو قائل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور اگر ترکی قائل نہ ہوا تو شاید امریکہ ترکی پر اس تجارت کو ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھائے‘‘۔
ایک سینئیر ترک عہدیدار نے اپنا نام سامنے نہ لانے کی صورت میں اس بات کی تصدیق کی کہ انقرہ تہران کے ساتھ ’بارٹر ٹریڈ‘ یا ’چیز کے بدلے چیز کی تجارت‘ کے امکانات پر بھی غور کر رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ ’بارٹر ٹریڈ‘ میں ترکی کو فائدہ ہوگا۔ جو بھی چیز وہ تجارت کے لیے استعمال کریں گے وہ مقامی طور پر بنائی جائے گی۔ جبکہ سونا انہیں درآمد کرنا پڑتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب ایران پر مزید پابندیاں لگنے کا امکان ہے، ترکی پر بھی توانائی کی ضروریات کے ضمن میں ایران پر انحصار کم کرنے کا دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو تہران اور انقرہ کے درمیان تعلقات میں بھی تناؤ آسکتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان شام کے حوالے سے مختلف سوچ پر پہلے ہی اختلاف پایا جاتا ہے۔
گذشتہ برس، تہران نے اس قیمتی دھات کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کیا۔ یہ ایران کی طرف سے ان عالمی پابندیوں اور دباؤ کو ناکام بنانے کی کوشش ہے جو اس کے جوہری پروگرام پر عائد کی گئی ہیں۔ چند ممالک کو اندیشہ ہے کہ ایران یہ سونا جوہری ہتھیار بنانے کے لیے بھی استعمال کرسکتا ہے۔
اطیلہ یسیلادا استنبول کے ایک تحقیقی ادارے سے وابستہ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ، ’’ترکی تہران کی سونے کی مد میں ضروریات پوری کر رہا ہے۔ پچھلے برس سونے کی خریداری کا رجحان سوئٹزرلینڈ سے لے کر ابو ظہبی تک مختلف رہا۔ لیکن پچھلے سال سونے کی فروخت گیارہ ارب ڈالر کے لگ بھگ رہی۔ اس میں زیادہ سرمایہ کاری ترکی کے باشندوں کی جانب سے کی گئی۔ اور یہی سونا اب ایران کے لیے بنیادی کرنسی بن گیا ہے جسے وہ دوسرے ممالک سے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے‘‘۔
گذشتہ سال نومبر میں ترکی کے ڈپٹی وزیر ِ اعظم علی باباکان نے تصدیق کی تھی کہ تہران گیس کی برآمدگی کے نتیجے میں ترکی کی جانب سے لیروں میں کی جانے والی ادائیگی کو سونا خریدنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ایران اپنے تیل کی برآمدات کا نوے فیصد ترکی کو بیچتا ہے۔ ایران ترکی کو تیل مہیا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ ترکی سب سے زیادہ تیل روس سے حاصل کرتا ہے۔
ایران کی سونے کی خریداری کو روکنے کے لیے امریکی صدر باراک اوباما نے اس ماہ ایک ایسے قانون پر دستخط کیے جس کی رُو سے ایران کو قیمتی دھات نہیں بیچی جا سکتی۔ لیکن ترک وزیر ِ خارجہ کے ترجمان سیلکک اونل کہتے ہیں کہ ترکی پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ان کے الفاظ میں، ’’ترکی صرف اقوام ِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی جانب سے سامنے آنے والی قراردادوں اور پابندیوں کے اطلاق کا پابند ہے‘‘۔
اطیلہ یسیلادا کا کہنا ہے کہ انقرہ کو بالآخر ان پابندیوں کے سامنے جھکنا پڑے گا۔ ان کے مطابق، ’’امریکہ پہلے تو ترکی کو قائل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور اگر ترکی قائل نہ ہوا تو شاید امریکہ ترکی پر اس تجارت کو ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھائے‘‘۔
ایک سینئیر ترک عہدیدار نے اپنا نام سامنے نہ لانے کی صورت میں اس بات کی تصدیق کی کہ انقرہ تہران کے ساتھ ’بارٹر ٹریڈ‘ یا ’چیز کے بدلے چیز کی تجارت‘ کے امکانات پر بھی غور کر رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ ’بارٹر ٹریڈ‘ میں ترکی کو فائدہ ہوگا۔ جو بھی چیز وہ تجارت کے لیے استعمال کریں گے وہ مقامی طور پر بنائی جائے گی۔ جبکہ سونا انہیں درآمد کرنا پڑتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب ایران پر مزید پابندیاں لگنے کا امکان ہے، ترکی پر بھی توانائی کی ضروریات کے ضمن میں ایران پر انحصار کم کرنے کا دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو تہران اور انقرہ کے درمیان تعلقات میں بھی تناؤ آسکتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان شام کے حوالے سے مختلف سوچ پر پہلے ہی اختلاف پایا جاتا ہے۔