امریکی وزیرِدفاع نیٹو کےاتحادی ملک ترکی کا دورہ کررہے ہیں۔ وہ جمعرات کے روز بغداد میں امریکی فوجوں کی واپسی کی تقریب میں شرکت کے بعد ترکی کے درالحکومت پہنچے۔ عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد، امریکہ کی نظر میں عراق میں ترکی کا رول بہت اہم ہو گیا ہے ۔
امریکی وزیرِ دفاع، Leon Panetta اپنے ترکی کے دو روزہ دورے میں ملک کی سیاسی قیادت سے ملیں گے۔ توقع ہے کہ ان کی گفتگو کا اہم موضوع عراق ہو گا۔ علاقے میں نیٹو کے اتحادیوں نےپہلے ہی تعاون میں اضافہ کر دیا ہے ۔
گذشتہ مہینے، امریکہ نے اپنے بنا پائلٹ والے ہوائی جہاز یعنی ڈرونز عراق سے ترکی کی ہوائی اڈے Incirlik منتقل کر دیے تھے ۔ یہ اڈہ عراق کی سرحد کے نزدیک واقع ہے۔ Kadir Has University کے بین الاقوامی تعلقات کے ماہر Soli Ozel کہتے ہیں کہ جب اس مہینے کے آخر میں عراق سے امریکی فوجیں چلی جائیں گی، تو یہ تعاون مزید گہرا ہو جائے گا۔
اوزل کے خیال میں حالات پر نظر رکھنے کے لیے، عراق پر ڈرونز کی پروازوں میں اضافہ کر دیا جائے گا ۔ اُن کے الفاظ میں: ’میرا اندازہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ Incirlik کا اڈہ امریکیوں کے زیادہ استعمال کے لیے دستیاب رہے ۔ سیاسی لحاظ سے، وہ چاہیں گے کہ ترکی اس بات کو یقینی بنائے کہ کردوں اور عربوں کے درمیان حالات قابو سے باہر نہ ہونے پائیں، اور کردستان کی علاقائی حکومت کی خود مختاری برقرار رہے‘۔
عراقی کردستان کا نیم خود مختار علاقہ، جس کی سرحدیں ترکی سے ملتی ہیں، مبصرین کے مطابق واشنگٹن کے لیے اسٹریٹجی کے لحاظ سے اہم ہے ۔
ترکی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان Selcuk Unal نے گذشتہ مہینے کہا کہ انقرہ یہ تجویز پیش کرنے کے بارے میں غور کر رہا ہے کہ عراق کے فوجی عملے کو تربیت دینے کا اہم کام جو امریکہ انجام دیتا رہا ہے، وہ امریکی فوجوں کے چلے جانے کے بعد، ترکی اپنے ذمے لے لے۔ ان کے الفاظ میں: ’ہم نیٹو کے دائرے میں رہ کر، عراق میں فوجی تربیت کے کام میں مدد دیتے رہےہیں ۔ یہ معاملہ ایجنڈے میں شامل ہے، اور ہم اس پر غور کریں گے ‘۔
اِس قسم کے اقدام سےعراق میں ترکی کا اثر و رسوخ مضبوط ہوگا اور اس سے ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی روک تھام ہو سکے گی۔ ترک روزنامے Milliyet کے سفارتی کالم نگار، Semih Idiz کہتے ہیں کہ ترکی سمجھتا ہے کہ عراق میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں امریکہ کی تشویش بجا ہے ۔
اُن کے الفاظ میں، ترکی کوعراق میں شیعہ عناصر کی وجہ سے ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش ہو گی۔ عراق میں اب ایران اور ترکی کے درمیان اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ ہو رہا ہے‘ ۔
گذشتہ چند برسوں سے، ترکی عراق میں اپنا سیاسی اثر بڑھانے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق، گذشتہ سال ترکی نے عراق کے عام انتخابات میں وزیرِ اعظم نوری المالکی کے خلاف Ayad Allawi کی قیادت میں سنی اور سیکولر گروپوں کی اتحاد کی حمایت کی تھی ۔ لیکن بین الاقوامی تعلقات کے ماہر Soli Ozel کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ترکی عراق میں ایرانی کے اثر و نفوذ کو چیلنج کرنے کو تیار ہو، لیکن بغداد میں ترک مخالف جذبات بڑھتے جا رہے ہیں۔
اوزل کے بقول، ترکی عراق میں سرگرم ہونا چاہے گا۔ لیکن، ابھی پچھلے ہفتے ہی، ترکی کے بارے میں مالکی کا لب و لہجہ خاصا سخت تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اتنے اچھے معلوم نہیں ہوتے۔ اور اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیوں کہ ترکی یہ نہیں چاہتا تھا کہ مالکی عراق کے وزیرِ اعظم بنیں‘۔
ترکی کی طرف سے عراق میں ایران کے اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کی کسی بھی کوشش کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ترکی کے ایران کے ساتھ تعلقات اور کشیدہ ہو جائیں گے ۔ یہ تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں کیوں کہ ترکی تہران کے اتحادی ملک شام کے صدر بشا رالاسد کے مخالفین کی مدد کر رہا ہے ۔
سابق ترک سفارتکار اور Kultur University میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر Murat Bilhan کہتے ہیں کہ عراق اس وسیع تر رجحان کا حصہ جس میں سابق اتحادی ممالک ایک دوسرے سے الگ ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے الفاظ میں: ’وہ ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اب ان میں رقابت پیدا ہو گئی ہے، وسط ایشیا میں، خلیج فارس میں، شام میں اور پورے علاقے میں‘۔
مبصرین کہتے ہیں کہ واشنگٹن میں ، بلا شبہ، اس رجحان کا خیر مقدم کیا جائے گا ۔ انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان عراق کے معاملے میں بڑھتے ہوئے تعاون سے، دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات اور زیادہ مضبوط ہوں گے جس سے تہران کی تشویش اور پریشانی میں اور زیادہ اضافہ ہو گا۔