ترکی میں اتوار کے روز بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں، جن کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے چونکہ جیتنے والے امیدوار ملک کے تمام اہم شہروں کا کنٹرول سنبھالیں گے۔
مہنگائی اور کسادبازاری کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں، اس بنا پر یہ انتخابات صدر رجب طیب اردوان کے لیے ایک بڑے چیلنج کے مترادف ہیں۔
انتخابات سے ایک ہفتہ قبل اردوان نے اپنے آبائی قصبے، استنبول میں لاکھوں افراد پر مشتمل ریلیاں نکالیں جس کا مقصد اپنے حلقےمیں ووٹروں کا اعتماد بحال کرنا تھا۔
ان انتخابات میں اردوان خود تو امیدوار نہیں ہیں، لیکن وہ انتخابی مہم کی قیادت ضرور کر رہے ہیں، اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ان کی انصاف (اے کے) پارٹی کا ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے ترکی کے اہم شہروں پر کنٹرول رہا ہے، جس حلقہ اثر کو وہ کھونا نہیں چاہتے۔
سال 1994میں اردوان انتخاب جیت کر استنبول کے میئر بنے تھے، جس عہدے کی بدولت اُنھیں ترک سیاست میں نمایاں ہونے کا موقع فراہم ہوا تھا۔ یہ شہر اُن کا پختہ قلعہ رہ چکا ہے۔ تاہم، ایک حالیہ عوامی جائزہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ استنبول شہر کا انتخابی دنگل کسی بھی کروٹ جا سکتا ہے۔
غربت عام ہے
استنبول کے گنگورن ضلع کے ایک چھوٹے سے مقامی پارک میں ریاست کی جانب سے رعایتی نرخوں پر فراہم کردہ خوراک کی رسد وصول کرنے کے لیے لوگ لمبی قطاروں میں کھڑے دکھائی دیے، جو وسیع زیر تعمیر عمارت کے مضافات کا علاقہ ہے۔
استنبول کے میئر کے عہدے کے امیدوار، اکرم امام اوگلو نے، جن کا تعلق 'سی ایچ پی' پارٹی سے ہے، اپنی انتخابی مہم کے دوران بس پر کھڑے ہو کر لوگوں کے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''مجھے گنگورن کے حالات بدتر لگ رہے ہیں۔ کبھی یہ خوشحال علاقہ ہوا کرتا تھا۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟'' مجمعے نے سی ایچ پی کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے، اور جواب دیتے ہوئے کہا کہ، ''آپ درست کہہ رہے ہیں''۔
امام اوگلو نے کہا کہ ''غربت نے شدت سے اپنا پنجہ گاڑ لیا ہے۔ خوشحال علاقے ختم ہوتے جا رہے ہیں، سماجی زندگی برائے نام ہے۔ یہ علاقہ امیر طبقے کو دستیاب سہولتوں سے عاری ہے۔ ہم صورت حال کو سنبھالیں گے''۔
کوئی وقت تھا کہ گنگورن کا علاقہ اردوان کی اے کے پارٹی کا گڑھ تھا، بتایا جاتا ہے کہ اب لوگ ناراض ہیں۔
سنیہ سر پہ دوپٹہ اوڑھنے والی خاتون ہیں۔ اپنی تقریر میں اُنھوں نے کہا کہ ''ہم ریٹائرڈ لوگ ہیں۔ ہر ماہ کی 15 تاریخ کو ہمارے پینشن کی رقم ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ہم فاقہ کشی پر مجبور ہوجاتے ہیں''۔
تاہم، وہ افراد جو اب بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ اے کے پی ان کے دکھ دور کر سکتی ہے، وہ ابھی تک اردوان کے سخت حامی ہیں۔